کمپنی مالکان کیخلاف اینٹی منی لانڈرنگ کی کارروائی بھی جاری ہے، فائل فوٹو
 کمپنی مالکان کیخلاف اینٹی منی لانڈرنگ کی کارروائی بھی جاری ہے، فائل فوٹو

ٹیکس چور ٹیکسٹائل کمپنیوں کیخلاف کارروائی

عمران خان:
ٹیکس چور ٹیکسٹائل کمپنیوں کیخلاف بڑے پیمانے پر کارروائی شروع کردی گئی ہے۔ محکمہ کسٹمز نے ایسی تمام کمپنیوں کا ڈیٹا حاصل کرلیا ہے۔ جنہوں نے برآمدات کا سامان تیار کرنے کے نام پر خام مال درآمد کیا اور مقامی مارکیٹ میں کمرشل بنیادوں پر فروخت کرکے اربوں روپے کا ناجائز فائدہ بٹورا۔ جبکہ قومی خزانے کو اس مسلسل جعلسازی سے بھاری نقصان پہنچایا گیا۔ ان کمپنی مالکان کے خلاف اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت بھی کارروائی کی جا رہی ہے۔ تاکہ چوری شدہ ٹیکس کی ریکوری کے ساتھ کالے دھن سے بنائی گئی ان کی جائیدادوں کو بھی ضبط کیا جا سکے۔

’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق گزشتہ روز کی جانے والی کارروائی میں حکومت کی جانب سے برآمدات پر دی گئی سہولت کا غلط استعمال کرکے کروڑوں روپے کا فراڈ کرنے پر فیئر ڈیل ٹیکسٹائل ملز پر 10 کروڑ روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا۔ کسٹمز ایڈجوڈیکشن کلکٹریٹ نے میسرز فیئر ڈیلز ٹیکسٹائلز پرائیویٹ لمیٹڈ پر 23 کروڑ 30 لاکھ مالیت کا فراڈ درست قرار دیتے ہوئے ٹیکسٹائل ملز سے 23 کروڑ واجب ادلا کی ریکوری کے ساتھ ہی 10 کروڑ مالیت کا جرمانہ بھی وصول کرنے کیلئے تحریری فیصلہ جاری کردیا ہے۔

معلوم ہوا ہے کہ کسٹمز کے ڈائریکٹوریٹ آف پوسٹ کلیئرنس آڈٹ سائوتھ نے ایکسپورٹ فیسی لیٹیشن اسکیم کا غلط استعمال کرنے اور قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچانے پر میسرزفیئر ڈیلز ٹیکسٹائلز ملز کیخلاف ایف آئی آر درج کی تھی۔ پوسٹ کلیئرنس آڈٹ سائوتھ نے میسرز فیئر ڈیلز ٹیکسٹائلز ملز کی جانب سے ایکسپورٹ فیسی لیٹیشن اسکیم کے تحت خام مال کے متعدد درآمدی کنسائمنٹس پر سنگین بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی اور درآمد کنندہ کیخلاف مقدمہ درج کیا تھا۔

تفتیش میں انکشاف ہوا کہ میسرز فیئر ڈیل ٹیکسٹائل کی مینوفیکچرنگ سائٹ آپریشنل نہیں اور ٹیکسٹائل ملز طویل مدت سے بند پائی گئی۔ فیکٹری بند ہونے کے مزید شواہد یوٹیلیٹی بلز اور لیبر ایمپلائمنٹ کی عدم موجودگی، ٹیکس گوشواروں اور حکومتی اداروں سے بھی کی گئی۔ ڈائریکٹوریٹ آف پوسٹ کلیئرنس آڈٹ سائوتھ کی تحقیقات میں یہ بھی سامنے آیا کہ درآمدکنندہ نے ڈیوٹی و ٹیکسز میں رعایتی سہولیات کا ناجائز فائدہ اٹھایا۔

اس کے علاوہ فزیکل تصدیق کے عمل کے دوران ایکسپورٹ فیسی لیٹیشن اسکیم کے تحت درآمد کیے گئے مستثنیٰ کپڑے کو نہ برآمد کیا گیا اور نہ ہی تیارکیا گیا۔ حالانکہ یہ کپڑا اسی شرط پر درآمد کیا گیا تھا کہ اسے تیار کرکے ایکسپورٹ کیا جائے گا۔ ایڈجیوڈکیشن کلکٹریٹ نے میسرز فیئر ڈیلز ٹیکسٹائل کو دفاع کیلئے کافی مواقع فراہم کیا۔ تاہم درآمدکنندہ نے اپنی صفائی میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیے۔ جس پر ایڈجیوڈکیشن کلکٹریٹ نے پوسٹ کلیئرنس آڈٹ کی جانب سے میسرز فیئر ڈیلز ٹیکسٹائل پر لگائے گئے الزامات کو درست قرار دیتے ہوئے 23 کروڑ 30 لاکھ روپے کے ڈیوٹی و ٹیکسز کی چوری کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ 10 کروڑ روپے کا جرمانہ اداکرنے کے احکامات جاری کردیے۔

اسی طرح کمپنی کے خلاف ایک اور کارروائی کیلئے رواں برس کے آغاز میں ڈائریکٹر پوسٹ کلیئرنس آڈٹ کو اطلاع ملی تھی کہ میسرز فیئر ڈیل ٹیکسٹائل کی جانب سے کراچی کی مقامی مارکیٹ میں ایکسپورٹ فنانس اسکیم کی سہولت کا غلط استعمال کیا جارہا ہے۔ جس پر ڈائریکٹر جنرل پوسٹ کلیئرنس آڈٹ ڈاکٹر قادر میمن نے ڈائریکٹر PCA ساؤتھ شیراز احمد کو اس اسکینڈل کا پردہ فاش کرنے کی ذمہ داری دی۔ جس پر پی سی اے افسران اے ڈی محمد سرفراز، اے او فہد اقبال اور اے او عمران حیدر پر مشتمل ٹیم نے کسٹمز ایکٹ کے سیکشن 26 بی کے تحت میسرز فیئر ڈیل ٹیکسٹائل کے احاطے میں ای ایف ایس سامان کی فزیکل جانچ پڑتال کی۔

ایف بی آر کے پاس دستیاب کسٹم، سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس کے اعداد و شمار کی بنیاد پر ایک ابتدائی ڈیسک آڈٹ کیا گیا۔ جس میں کئی جگہ پر غلط اعدادوشمار سامنے آئے۔ کیونکہ پی سی اے آڈٹ ٹیم صرف 5 ایم ٹن فیبرک ہی دیکھ سکی۔ جو فیکٹری کے احاطے میں دستیاب تھے۔ جبکہ باقی 106 ایم ٹن فیبرک غیر قانونی طور پر موجود تھا۔

ایکسپورٹ فنانس اسکیم کے قوانین کی خلاف ورزی پر اس سامان کو ضبط کیا گیا۔ جس میں 111 ایم ٹن فیبرک، جس کی مالیت 12کروڑ روپے بتائی گئی ہے۔ ملزم امپورٹر نے 6 گڈز ڈیکلریشن کے ذریعے ایکسپورٹ فنانس اسکیم کا غلط استعمال کرکے 10کروڑ روپے سے زائد کا سامان درآمد کیا۔ جس پر ڈیوٹی و ٹیکسز کی مد میں 51 ملین روپے واجب الادا تھے۔ پوسٹ کلیئرنس آڈٹ کی رپورٹ کے مطابق سامان فیکٹری میں موجود نہیں۔

جبکہ درآمد کنندہ نے ابتدائی طور پر دعویٰ کیا کہ مذکورہ سامان چمن ڈرائی پورٹ پر پڑا ہے اور اس نے جی ڈی کے مسودے کی ہارڈ کاپی بھی فراہم کی۔ لیکن چمن کسٹمز سے تصدیق کے بعد یہ سامنے آیا کہ جی ڈی کا مسودہ جعلی تھا۔ درآمد کنندگان کو پاکستان میں کہیں بھی EFS سامان کی تصدیق کروانے کا موقع بھی دیا گیا۔ چاہے وہ فیکٹری کے باہر کہیں پڑا ہوا ہو اور اسے ٹرک کے رجسٹریشن نمبر، ڈرائیوروں کے سیل نمبر اور ٹرک کی صحیح جگہ اور گمشدہ سامان فراہم کرنے کو کہا گیا۔ لیکن درآمد کنندہ ثبوت دینے میں ناکام رہاجس سے ظاہر ہوتا ہے کہ درآمد کنندہ نے مقامی مارکیٹ میں ایکسپورٹ فنانس اسکیم کا غلط استعمال کیا۔

درآمد کنندہ کی طرف سے فراہم کردہ برآمدی جی ڈی کا مسودہ بھی من گھڑت اور جعلی ثابت ہوا۔ سیکشن 32A کے تناظر میں مالی فراڈ کی ایک ایف آئی آر پوسٹ کلیئرنس آڈٹ ساؤتھ نے درج کرادی۔ معائنہ کے دوران میسرز فیئر ڈیل کا فیکٹری مینوفیکچرنگ ایریا بند پایا گیا، مشینیں خستہ حالت میں تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فیکٹری کافی عرصے سے غیر فعال تھی۔

EFS سامان کے علاوہ درآمد کنندہ مختلف اقسام کے کپڑوں کو درآمد کرتا ہوا پایا گیا۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ درآمد کنندہ سامان کو درآمد کرنے اور بیچنے کیلئے مینو فیکچرنگ اسٹیٹس کا غلط استعمال کر رہا ہے۔ فیبرک کی درآمدات کی بھاری مقدار بھی درآمد کنندہ کی مالی مالیت کے مطابق نہیں تھی۔ اس لیے پوسٹ کلیئرنس آڈٹ منی لانڈرنگ کے پہلو کی بھی تحقیقات کر رہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔