جنگ بندی کی خبر سامنے آتے ہی غزہ کی پٹی میں فلسطینی سڑکوں پر اس معاہدے کا جشن منا رہے ہیں،فوٹو سوشل میڈیا
جنگ بندی کی خبر سامنے آتے ہی غزہ کی پٹی میں فلسطینی سڑکوں پر اس معاہدے کا جشن منا رہے ہیں،فوٹو سوشل میڈیا

حماس اور اسرائیل کے درمیان فائر بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کا معاہدہ طے پا گیا

دوحہ : حماس اور اسرائیل کے درمیان غزہ میں فائر بندی اوریرغمالیوں کی رہائی کا معاہدہ طے پا گیا۔قطری وزیرِ اعظم کی حماس اور اسرائیل کے درمیان یرغمالیوں کے تبادلے اور جنگ بندی معاہدے کی تصدیق کردی۔

قطر کے وزیرِ اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان التھانی نے قطر میں پریس کانفرنس کے دوران تصدیق کی ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان یرغمالیوں کے تبادلے اور جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ معاہدے کا آغاز اتوار 19 جنوری سے ہو گا اور اس کی مخصوص ٹائمنگ پر تاحال فیصلہ نہیں ہوا ہے۔انھوں نے کہا کہ ’امید ہے کہ یہ جنگ کے اختتام کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔

اسرائیل میں جنگ بندی کے معاہدے کی خبروں کے بعد جشن

جنگ بندی کے معاہدے کی خبریں سامنے آنے کے بعد تل ابیب میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور اسرائیلی یرغمالیوں کی جلد واپسی کی اطلاعات پر جشن منا رہے ہیں۔

تل ابیب

معاہدے کے نتیجے میں غزہ پٹی میں اسرائیلی حملوں میں وقفہ آئے گا، معاہدہ سے یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کی مرحلہ وار رہائی عمل میں آئے گی، فائر بندی معاہدے پر اتوار سے عمل درآمد شروع ہونے کا امکان ہے، فائر بندی معاہدے پر عملدرآمد کے 16 ویں روز جنگ کے مکمل خاتمے کے لیے مذاکرات شروع ہوں گے۔

حماس میڈیا آفس کا کہنا ہے کہ غزہ پٹی کے لوگ فائر بندی کے باضابطہ آغاز تک اپنی جگہ موجود رہیں۔اس سے قبل فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کا کہنا ہے کہ اس نے غزہ جنگ بندی معاہدے سے متعلق باضابطہ جواب ثالث فریقوں کو سونپ دیا ہے۔

حماس کا کہنا تھا کہ مجوزہ جنگ بندی ڈیل پر تبادلہ خیال کیلئے ہنگامی اجلاس منعقد کیا تھا، اسرائیل کی غزہ میں وحشیانہ نسل کشی روکنے کے لیے دانشمندی کا مظاہرہ کیا۔

غزہ میں جنگ بندی معاہدے پر فلسطینیوں کا جشن

جنگ بندی کی خبر سامنے آتے ہی غزہ کی پٹی میں فلسطینی سڑکوں پر اس معاہدے کا جشن منا رہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر لوگوں کے جشن منانے کی ویڈیوز سامنے آئی ہیں، جس میں نوجوانوں اور بچوں کو سڑکوں پر جھومتے اور خوشی میں نعرے لگاتے دیکھا جاسکتا ہے۔

امریکی یرغمالیوں کے اہل خانہ کا جنگ بندی معاہدے پر بائیڈن اور ٹرمپ کا شکریہ 

غزہ میں یرغمال بنائے گئے امریکی شہریوں کے اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ وہ ’انتہائی شکر گزار‘ ہیں کہ معائدے کے نتیجے میں ’اُن کے پیارے وطن واپس آرہے ہیں‘۔

ایک بیان میں امریکی یرغمالیوں کے اہل خانہ نے صدر جو بائیڈن، نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی ٹیموں کی کوششوں پر ان کا شکریہ ادا کیا۔

انھوں نے مزید کہا کہ اسرائیل، مصر، قطر، امریکہ اور دیگر فریقین کے درمیان جاری رہنے والی کوششوں اور تعاون کے نتیجے میں آج معاملات یہاں تک پہنچے ہیں۔

انھوں نے تمام فریقوں پر زور دیا کہ وہ اس وقت تک جنگ بندی کے معاہدے پر قائم رہیں جب تک کہ تمام یرغمالی اپنے اپنے گھروں تک واپس نہیں پہنچ جاتے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ہمیں امید ہے کہ صدر ٹرمپ کی قیادت میں تمام یرغمالی اپنے وطن واپس آئیں گے۔

غزہ جنگ بندی معاہدے کے اہم نکات

غزہ جنگ بندی معاہدے کے اہم نکات سامنے آگئے، اسرائیل اور حماس کے معاہدے کے تحت جنگ بندی کا دورانیہ 6 ہفتوں پر محیط ہوگا۔

عرب میڈیا کے مطابق اسرائیل ہر یرغمالی کے بدلے 30 فلسطینی قیدی رہا کرے گا، اسرائیل ہر خاتون فوجی قیدی کے بدلے 50 فلسطینی قیدی رہا کرے گا۔

معاہدے کے مطابق حماس 42 روزہ جنگ بندی کے دوران 33 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے گی، پہلے مرحلے میں حماس 19 سال سے کم عمر یرغمالیوں کو رہا کرے گی۔

سرائیل 7 اکتوبر 2023 کے بعد گرفتار 19 سال سے کم عمر افراد کو رہا کرے گا، اسرائیل مجموعی طور پر 1 ہزار 650 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔

معاہدے میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج فیلے ڈیلفیا اور نیتساریم راہداریوں سے مکمل انخلا کرے، اسرائیل یومیہ 600 امدادی سامان سے لدے ٹرکوں کو غزہ پٹی میں داخلے اجازت دے گا۔

دوسرے مرحلے میں حماس فوجی یرغمالیوں کو رہا، اسرائیلی فوج غزہ پٹی سے مکمل انخلا کرے گی۔

برطانوی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ حماس نے غزہ میں جنگ بندی سے متعلق معاہدے کی زبانی منظوری دے دی ہے، فلسطینی حکام کو حتمی تحریری معاہدے کے لیے معلومات کا انتظار ہے۔

حماس نے جنگ بندی معاہدے کی خبروں پر ردعمل میں قاہرہ سے جاری ایک بیان میں کہا ہےکہ ابھی تک جنگ بندی ڈیل پر کوئی بھی تحریری ردعمل نہیں دیا۔

عرب میڈیا کے مطابق غزہ جنگ بندی کی صورت میں قیدیوں کے تبادلے کے لیے مصر نے رفاہ چوکی کھولنے کی تیاری شروع کر دی ہے، 7 اکتوبر 2023 کےبعد شروع ہونے والےاسرائیلی حملوں میں اب تک 46 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔

حماس نے الجزیرہ عربی کو بتایا ہے کہ ایک وفد جس کی قیادت خلیل الحیہ کر رہے ہیں، نے قطر اور مصر میں ثالثوں کو تجویز کردہ جنگ بندی اور قیدیوں کے معاہدے کی منظوری دے دی ہے۔

اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ معاہدے پر حماس کی منظوری کے بعد دستخط کا عمل شروع ہو جائے گا، منظوری سے پہلے حماس نے غزہ پٹی سے اسرائیلی فوج کے مرحلہ وار انخلا کا جائزہ لیا۔

جنگ بندی جمعرات سے شروع ہونے پر قیدیوں کا تبادلہ اتوار کو شروع ہونے کا امکان ہے۔

اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ حماس غزہ جنگ بندی اور مغویوں کی واپسی کے قطری ثالث کے مسودے پر راضی ہے، معاہدے کے قطری مسودے کے تحت پہلے مرحلے میں 33 اسرائیلی مغوی رہا کیے جائیں گے، معاہدے کے 16ویں روز سے جنگ بندی ڈیل کے دوسرے مرحلے پر مذاکرات شروع ہوں گے۔

قطری ثالت  کے مسودے کے مطابق  غزہ سے اسرائیلی فوج کی واپسی مرحلہ وار ہوگی، اسرائیلی فورسز غزہ پٹی کے سرحدی اطراف تعینات ہوں گی، جنوبی غزہ میں فیلی ڈیلفی راہداری کے لیے علیحدہ سیکیورٹی انتظامات کیے جائیں گے، شمالی غزہ کے غیر مسلح فلسطینیوں کو واپسی کی اجازت دی جائے گی۔

عرب میڈیا کا کہنا ہے کہ غزہ جنگ بندی کی صورت میں قیدیوں کے تبادلے کے لیے مصر نے رفاہ چوکی کھولنے کی تیاری شروع کر دی ہے۔

معاہدے میں ابھی بھی حل طلب شقیں ہیں: اسرائیل

دنیا کی نظریں اِس وقت اسرائیل اور حماس کے درمیان طے پانے والے جنگ بندی کے معاہدے پر مرکوز ہیں اور لوگ اس سے متعلق مزید جاننے کے لیے انتظار کر رہے ہیں، تاہم اسی دوران اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کے دفتر سے ایک تازہ ترین بیان جاری ہوا ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم کے آفس سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ غزہ اور مصر کے درمیان واقع فلاڈیلفی کوریڈور پر افواج کی تعیناتی کے حوالے سے حماس ’پیچھے ہٹ گئی ہے۔‘

وزیر اعظم آفس کا مزید کہنا ہے کہ معاہدے میں ’ابھی بھی کئی غیر حل شدہ شقیں‘ ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے- تاہم اس کے ساتھ وزیر اعظم آفس نے اِس امید کا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ آنے والے گھنٹوں میں تفصیلات کو حتمی شکل دے دی جائے گی۔

خیال رہے کہ اسرائیلی فوج اسے فلاڈیلفی کوریڈور کا نام دیتی ہے جبکہ فلسطینی اسے ’صلاح الدین محور‘ کہتے ہیں۔ یہ تنگ پٹی مصر کے ساتھ غزہ کی سرحد کے ساتھ گزرتی ہے اور عسکری حکمت عملی کے لحاظ سے بہت اہم ہے۔ اس راہداری پر رفح کراسنگ بھی ہے جو غزہ پٹی کو مصر سے ملاتی ہے۔ یہ غزہ کی واحد کراسنگ ہے جس پر اسرائیل کا براہ راست کنٹرول نہیں ہے۔ یہ مصر سے اہم رسد کے لیے واحد زمینی راستہ بھی ہے۔

یہ 12.6 کلومیٹر طویل سرحد مصری سرحد کے ساتھ کریم شالوم سے بحیرۂ روم تک جاتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔