عمران خان :
پاکستانی لڑکیوں کو شادی کا جھانسا دے کر چین اسمگل کرنے والے گروپوں کے حوالے سے سنسنی خیز انکشافات سامنے آگئے ہیں۔ شادی کے نام پر چین میں جسم فروشی کے علاوہ جگر ، گردے سمیت دیگر اعضا نکال کر فروخت کا دھندا بھی چلایا جارہا ہے۔ اس نیٹ ورک میں خواتین بھی شامل ہیں۔ ایف آئی اے کی تحقیقات میں ایسے 90 چینی اور پاکستانی افراد کی نشاندہی کی گئی جن کے درمیان اس طرح کے رشتے کرکے ان لڑکیوں کو چین بھیجا گیا۔ پنجاب اور ملک بھر کی اقلیتی برادریوں کی نوجوان لڑکیوں کو خاص طور پر شکار بنایا جا رہا ہے۔ یہاں پر ایف آئی اے کی فائلوں میں بند کچھ اہم حقائق قارئین کے لئے پیش کئے جا رہے ہیں۔
واضح رہے کہ اتوار کے روز اسلام آباد ایئرپورٹ پر ایف آئی اے امیگریشن نے ایک بڑی کارروائی کے دوران پاکستانی لڑکیوں کو شادی کا جھانسہ دے کر چین اسمگل کرنے والے گروہ کے تین ملزمان کو گرفتار کیا۔ ایف آئی اے ذرائع کے مطابق گرفتار ہونے والے ملزمان کی شناخت شوگئی (یوسف)، عبد الرحمٰن اور محمد نعمان کے نام سے ہوئی۔ جبکہ ایک متاثرہ لڑکی کو بھی حفاظتی تحویل میں لیا گیا۔
اس کارروائی کے حوالے سے ایف آئی اے کی جانب سے دی گئی تفصیلات کے مطابق ملزمان متاثرہ لڑکی کو شادی اور ملازمت کا جھانسہ دے کر چین اسمگل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ فلائٹ نمبر CZ6034 کے ذریعے چین جا رہے تھے۔ ابتدائی تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ یہ گروہ پاکستانی لڑکیوں کو چینی شہریوں سے جعلی شادی کروا کر انہیں چین اسمگل کرنے میں ملوث ہے۔
اس منظم گینگ میں کئی خواتین بھی شامل ہیں جو غریب اور ضرورت مند لڑکیوں کو تلاش کر کے انہیں شادی کے لیے آمادہ کرتی ہیں۔ اس گروہ کے ملزمان متاثرہ لڑکیوں کو چینی شہریوں کے ساتھ شادی پر آمادہ کرتے تھے اس کے بعد ان کا ڈیٹا اور دستاویزات ایجنٹ عبد الرحمٰن اور محمد نعمان کے حوالے کیے جاتے تھے جو چینی ایجنٹ پاول کے ساتھ رابطہ رکھتے اور پاول بھاری رقوم کے عوض چینی کلائنٹ کا بندوبست کرتا تھا۔اس کے علاوہ ملزمان پاکستانی لڑکیوں کے سفری دستاویزات اور دیگر سہولیات بھی فراہم کرتے تھے۔
تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ملزمان نے متاثرہ لڑکی کی والدہ سے 10 لاکھ روپے میں معاملات طے کیے تھے جن میں سے ڈیڑھ لاکھ روپے کی ادائیگی کی جا چکی تھی۔ جبکہ ملزمان نے متاثرہ لڑکی سے بلیک میلنگ کیلئے 10 لاکھ روپے کا قرض لینے کا اسٹامپ پیپر بھی بنوایا تھا۔ ایف آئی اے حکام نے تینوں ملزمان کو گرفتار کر کے مزید تحقیقات اور قانونی کارروائی کے لیے انسدادِ انسانی اسمگلنگ سیل اسلام آباد منتقل کر دیا ہے۔ جبکہ اس گروہ کے دیگر افراد کی گرفتاری کے لیے بھی کارروائی جاری ہے۔
اس ضمن میں ایف آئی اے ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان سے چینی باشندوں اور مقامی ایجنٹوں کی ملی بھگت سے اس نوعیت کی وارداتیں 2016ء میں شروع ہوئیں اور آنے والے برسوں میں انہوں نے منظم گروپوں کی شکل اختیار کرلی۔ اس نیٹ ورک کے ذریعے اب تک پاکستان سے سینکڑوں لڑکیوں کو چین میں اس گھنائونے کاروبار کے لئے منتقل کیا جاچکا ہے۔
’’امت‘‘ کو ملنے والی دستاویزات سے معلوم ہوا کہ گزشتہ عرصہ میں جب ان گروپوں کی وارداتیں بے تحاشا بڑھ گئیں تو اس پر حکومت کو نوٹس لینا پڑا۔ جس کے بعد وفاقی وزارت داخلہ کے ذریعے ایف آئی اے کو ان عناصر کے خلاف ملک گیر کریک ڈائون کرنے کے احکامات جاری کئے گئے۔ جبکہ اس حوالے سے اعداد و شمار پر مشتمل فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ بھی طلب کی گئی جس میں سفارشات بھی مانگی گئیں۔
بعد ازاں ایف آئی اے کی جانب سے اس اسکینڈل کی تحقیقات کے حوالے سے خصوصی ٹیمیں بنائی گئیں۔ اس کے ساتھ ہی مختلف علاقوں میں مخبروں کا جال بچھایا گیا اور پہلے سے حراست میں موجود ملزمان کے ساتھ رابطوں میں رہنے والے دیگر ایجنٹوں کو ٹریس کرنا شروع کیا گیا۔
اسی دوران ملنے والی ایک خفیہ اطلاع پر ایف آئی اے پنجاب کی ٹیم نے اس وقت ڈپٹی ڈائریکٹر جمیل احمد میو کی سربراہی میں قولین میریج ہال ڈی چوک فیصل آباد میں چھاپہ مارا گیا۔ جہاں پر شمیم نامی ایک مسیحی لڑکی کی شادی ایک چینی شخص سے کی جا رہی تھی۔ یہاں سے ملوث ملزمان زاہد مسیح، سنیل یوسف، قیصر محمود بھٹی اور کاشف نواز کو حراست میں لیا گیا۔ مقدمہ درج کرکے مزید تحقیقات کی گئیں تو کئی انکشافات سامنے آئے جنہیں کیس اسٹڈی کا حصہ بنا کر رپورٹ وفاقی حکومت کو ارسال کی گئی۔
اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ گروپ کی سرغنہ مس کینڈس چینی شہری ہے جس کے لئے عسکری 11کی بلڈنگ کے رہائشی انس بٹ، واجد اور ملک قیصر ایجنٹ اور فرنٹ مین کا کردار ادا کرتے رہے۔ اسی طرح سے شادی کروانے والا پادری پاسٹر زاہد مسیح بھی لڑکیوں کے اہل خانہ کو راضی کرنے کے لئے فعال کردار ادا کرتا رہا۔ اس کے ساتھ ہی مزید بتایا گیا کہ یہ گروپ اس انسانی اور جسمانی اسمگلنگ کے لئے ہر قسم کے غیر اخلاقی اور غیر قانونی کام کر رہا تھا جس میں جعلی میرج سرٹیفکیٹ، چینی دولہوں کے جعلی کوائف، دلہنوں کے جعلی کوائف اور دستاویزات پر پاسپورٹ بنوا کر مس کینڈس کو فراہم کئے جاتے تھے جو ان کے ویزوں اور روانگی کے بندوبست کرتی تھی۔
مذکورہ ایف آئی اے رپورٹ میں یہ روح فرسا انکشاف بھی کیا گیا کہ ملزمان کے مطابق پاکستان سے شادیوں کی آڑ میں اسمگل کی گئی لڑکیوں سے جسم فروشی کے علاوہ جبری مزدوری کے کام بھی لئے جاتے ہیں۔ یہی نہیں، بلکہ بعض وارداتوں میں انہیں چین منتقل کرنے کے بعد ان کے اعضا بھی فروخت کئے جاتے ہیں۔
مذکورہ نیٹ ورک کے خلاف ملک گیر کارروائیوں کے لئے ان تمام ملزمان کے آپس میں رابطوں کا ریکارڈ یعنی کال ڈیٹا ( سی ڈی آر) جعلی دستاویزات بھی وفاقی حکومت کو رپورٹ کے ساتھ بھیجے گئے۔ اس دوران ہونے والی ایسی متعدد کارروائیوں میں مجموعی طور پر 7 چینی باشندوں کو حراست میں لیا گیا جن سے 17 موبائل فونز، لیپ ٹاپ ضبط کئے گئے۔ ان کے پاس سے ملنے والی 7 موبائل سموں کو بھی موبائل فونز اور لیپ ٹاپ کے ساتھ فارنسک چھان بین کے لئے بھیجا گیا تاکہ ملک بھر میں پھیلے اس نیٹ ورک کے خلاف ٹھوس شواہد کو رپورٹ کا حصہ بنایا جاسکے۔
ایف آئی اے رپورٹ کے مطابق جب سرغنہ مس کینڈس کے خلاف کافی شواہد مل گئے تو اس کے بعد اس سے تفصیلی پوچھ گچھ کی گئی۔ اور اس سے ملنے والی معلومات کو فارنسک ڈیٹا اور نادرا کی ایس او پیز کے ساتھ وفاقی حکومت کو ارسال کیا گیا۔ اس ایک کیس سے شروع ہونے والی کارروائیوں میں مجموعی طور پر 90 ایسے چینی اور پاکستانی افراد کا سراغ لگایا گیا اور ان کے حوالے سے دستاویزات اور امیگریشن ریکارڈ حاصل کرکے چین کے سفارت خانے کو ارسال کیا گیا۔
اس ضمن میں وفاقی سطح پر چینی حکام سے بات کی گئی کہ ان عناصر کے خلاف چین میں کارروائی کے لئے معاونت کی جائے۔ جبکہ چینی سفارت خانے سے ان تمام پاکستانی لڑکیوں کا ریکارڈ بھی طلب کیا گیا جن کے لئے اس عرصہ کے دوران ان کے چینی شوہروں نے اپنی بیویوں کی حیثیت سے ویزے منگوائے تھے۔