آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی کو فوج سے جبری ریٹائرکیا گیا تھا۔ انھوں نے بھارتی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ کے ساتھ مل کرکتاب لکھنے کیلئے فوج سےکلئیرنس نہیں لی تھی۔ امت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی کتاب کی اشاعت کیلئے پاک فوج یا حکومت سے اجازت لینے کا سوال گول کرگئے۔ ’’امت’’ کے اس سوال پرکہ انہوں نے اس کتاب کی اشاعت کے لئے حکومت پاکستان یا پاک فوج کے ہیڈ کوارٹر یعنی جی ایچ کیو سے بھی اجازت لی تھی یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ کتاب کے حوالے سے کسی بھی قسم کے سوال کا جواب نہیں دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کتاب پر ہونے والے تمام تبصروں کے وہ منتظر ہیں تاہم جنرل (ر) اسد درانی نے ’’را‘‘ کے سابق افسران کے ساتھ اپنے رابطوں کے حوالے سے اسپائی کرونیکلز میں اظہارخیال کیا ہے۔ کتاب کے ساتویں باب میں جب بھارتی صحافی ادتیہ سنہا نے درانی سے پوچھا کہ اے ایس دولت کے ساتھ ان کے رابطوں کو آئی ایس آئی کیسے دیکھتی ہے تو اسد درانی کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر مجھ سے کسی نے بات نہیں کی، ماضی میں جو بھی میں نے کہا یا لکھا، کسی نے مجھے نہیں ٹوکا۔ اسد درانی کا کہنا تھا کہ ملازمت کی ذمہ داریوں سے فارغ ہونے کے بعد وہ سابق ’’را‘‘ چیف کے ساتھ مل کر مقالے لکھ چکے ہیں اور اسامہ بن لادن کے معاملے پر سرکاری مؤقف سے ہٹ کر بات کرچکے ہیں۔ کسی نے بھی انہیں غیر ذمہ دار قرار نہیں دیا۔ دوسری جانب دفاعی تجزیہ کارجنرل (ر) امجد شعیب نے امت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسد درانی نے کتاب کے حوالے سے فوج کو اعتماد میں نہیں لیا۔ ان کے خیالات ایسے ہی رہے ہیں۔ فوج سے بھی انہیں جبری ریٹائرڈ کیا گیا تھا۔ اسد درانی کا ریٹائرمنٹ کے بعد بھی فوج سے کوئی زیادہ تعلق نہیں رہا۔ انہیں ریٹائرڈ افسروں کی تقریب میں بھی کم ہی مدعو کیا جاتا ہے۔ جنرل(ر) شعیب نے کہا کہ اسد درانی آئی ایس آئی میں تھے تو سیاست دانوں میں پیسے بانٹنے کا اسکینڈل سامنے آیا، جس پر اس وقت کے آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ نے انہیں آئی ایس آئی سے ہٹا کرجی ایچ کیو میں پوسٹ کردیا۔ خیال تھا کہ جی ایچ کیو میں آنے کے بعد وہ غیرموٴثر ہوجائیں گے لیکن اسد درانی نے جب جی ایچ کیو سے بھی پرانے تعلقات نبھانے کی کوشش کی تو انہیں جبری ریٹائرڈ کردیا گیا۔ بعد میں اسد درانی نے پیسوں کی تقسیم کے بارے میں حلف نامہ دے کرجنرل اسلم بیگ کو پھنسادیا۔ اس سوال پر کہ کیا ریٹائرڈ فوجی افسرپرکوئی پابندی وغیرہ ہوتی ہے۔ جنرل امجد شعیب نے کہا کہ 2 برس تک پابندی ہوتی ہے تاہم اس کے بعد بھی اگر کوئی کتاب وغیرہ لکھے اور ملک سے مخلص ہو تو عموماً اسے جی ایچ کیو اورایجنسی کو پہلے بھیجا جاتا ہے تاکہ وہ اس پرنظر ڈال لیں، اگر سچائی بھی لکھی ہو اور وہ ملک کے مفاد میں نہ ہو تو اسے نکال دیا جاتا ہے، تاہم اسد درانی نے یہ کتاب زیادہ تر باہرلکھی اور را کے سابق سربراہ ایس اے دولت سمیت دیگر لوگ بھی اس میں شامل تھے۔ اس لیے وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اس کتاب کی پاک فوج سے کلیئرنس لی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کتاب پر فوج کی طرف سے ردعمل متوقع ہے۔ اسامہ کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا کہ اسد درانی شروع سے ہی یہ موٴقف پیش کرتے رہے ہیں کہ اسامہ کو ہمارے بغیر نہیں پکڑا جاسکتا لیکن جب بھی ان سے ثبوت طلب کیا جائے تو وہ کہتے ہیں کہ نہیں یہ میرا خیال ہے۔ حالانکہ ایسی باتیں خیالی نہیں کی جاسکتیں۔ انہوں نے بتایا کہ اسامہ کے واقعے کے بعد میں نے خود جنرل کیانی اورجنرل پاشا سے بات کی تھی۔ انہوں نے واضح کیا تھا کہ القاعدہ سربراہ کے بارے میں پاکستان کو علم نہیں تھا۔ ویسے بھی اس وقت ہمارا فوکس کالعدم ٹی ٹی پی پر تھا جو ہمارے لئے مسئلہ بنے ہوئے تھے۔
( یہ خبر25 مئی کو امت اخبار میں شائع ہوئی )