سعودی عرب میں عربی زبان کے اخبار المکہ میں ایک کارٹون شائع ہوا ہے جس میں کارٹونسٹ عبداللہ جابر نے ایک قرآنی آیت پر پانچ پانچ سو سعودی ریال کے 4 نوٹ بنائے ہیں۔ کئی لوگوں نے اس کارٹون اور اس میں دیئے گئے پیغام کی حمایت کی ہے جبکہ کچھ نے اخبار سے معافی مانگنے اور عبداللہ جابر کو سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
کارٹون میں جس آیت پر کرنسی نوٹ بنائے گئے وہ سورۃ بقرہ کی 179 ویں آیت کا پہلا حصہ ’’وَلَكُمۡ فِى ٱلۡقِصَاصِ حَيَوٰةٌ۬‘‘ (اور اے عقلمندو تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے، اردو ترجمہ احمد علی) ہے۔ کارٹونسٹ عبداللہ جابر نے اس لفظ پر کرنسی نوٹ اس انداز میں بنائے کہ لفظ ٱلۡقِصَاصِ مکمل طو پر چُھپ گیا۔
سعودی کارٹونسٹ نے سعودی عرب میں پائے جانے والے اس حالیہ رحجان پر تنقید کی ہے جس میں قتل کرنے والے بیشتر افراد لواحقین کو رقم دے کر چھوٹ جاتے ہیں۔
اسلام میں قصاص و دیت کا قانون موجود ہے۔ دیت کے تحت قاتل مقتول کے لواحقین سے معافی مانگتا ہے اور انہیں رقم بھی ادا کرتا ہے۔ تاہم اس کے لیے جرم کا اقرار اور معافی مانگنا لازمی ہے۔ جبکہ اگر لواحقین معافی سے انکار کردیں تو پھر قصاص لازم ٹھہرتا ہے جو جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ کا قانون ہے۔
عبداللہ جابر نے اپنے کارٹون سے یہ دکھانے کی کوشش کی کہ سعودی عرب میں دیت کے بڑھتے رحجان کا مطلب درحقیقت قصاص سے متعلق قرآنی احکامات کو پس پشت ڈالنا ہے۔
سعودی عرب میں دیت کے بڑھتے رحجان کے خلاف یہ واحد کارٹون نہیں۔ ایک اور کارٹونسٹ فہد خمیسی کا کارٹون بھی سامنے آیا ہے جس میں جبہ پہنے معزز نظر آنے والا ایک شخص دیت کی رقم سے بھرا تھیلا لیے کھڑا ہے جبکہ اس کے عقب میں دوسری جانب منہ کیے ایک قاتل ایک ہاتھ میں پستول اور دوسرے میں خنجر لیے غالباً ایک اور قتل کرنے کیلئے جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ دیت کی گنجائش کے منفی اور ناجائز استعمال پر پاکستان سمیت کئی ممالک میں تنقید کی جاتی ہے۔ پاکستان میں شاہ زیب قتل کیس میں دیت کے بدلے ملزم شاہ رخ جتوئی کو رعایت دینے پر سپریم کورٹ نے نوٹس لیا تھا۔ شاہ رخ جتوئی نے اپنے فعل پر کبھی ندامت ظاہر نہیں کی۔ اسی طرح امریکی سی آئی اے اہلکار ریمنڈ ڈیوس کو دیت کے بدلے چھوڑنے کیلئے لواحقین پر دباؤ ڈالنے کی خبریں سامنے آئی تھیں۔ حالانکہ دیت کے لیے دباؤ ڈالنا اس اسلامی رعایت کے منافی ہے اور اقرار جرم اور نادم ہونا لازمی شرط۔
سعودی عرب میں مالدار افراد کی جانب سے دیت پر زور اور قصاص کے حکم کو پس پشت ڈالنے پر ہی عبداللہ جابر اور فہد خسیمی نے تنقید کی۔ جس پر بیشتر لوگوں نے مثبت ردعمل ظاہر کیا۔
خود عبداللہ جابر نے ایک ٹوئیٹ میں اس بات پر حیرت ظاہر کی کہ سعودی ادارے آرٹ اور بصری پیغامات کی اہمیت کو سمجھنا شروع ہوگئے ہیں۔
لیکن سوشل میڈیا پر کئی لوگون نے کارٹون پر اعتراض بھی اٹھایا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اخبار اور کارٹونسٹ نے قرآن پاک کی توہین کی۔ اخبار معافی مانگے اور کارٹونسٹ کے خلاف مقدمہ چلایا جائے۔
لیکن کئی دیگر لوگوں نے کہا کہ قرآن کی توہین اصل میں اس کے احکامات پر عمل نہ کرنا ہے اور یہ کہ ایک مسئلے کی نشاندہی کرنے میں کوئی گستاخی نہیں۔ اصل جرم اسلامی احکامات کو غلط رنگ دینا ہے۔