سندھ حکومت نے فاٹا میں دہشت گردی اور سیکیورٹی کے نام پراین ایف سی ایوارڈ میں صوبے کا حصہ کم کرنے کی مخالفت کردی۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ وفاقی حکومت اس بات کی خواہاں ہے کہ مجموعی منقسم پول کا 7 فیصد سماجی سیکٹراور سیکیورٹی پراخراجات کے لیے خصوصی پول کا حصہ بنایاجائے۔
مراد علی شاہ نے واضح کیا کہ سندھ حکومت اس تجویز پر راضی نہیں ہوسکتی کیونکہ خیبر پختونخوا کو دہشتگردوں کے خلاف جنگ میں ہونے والے ان کے نقصانات کے ازالے کے لیے اضافی ایک فیصد حصہ کی اجازت دی گئی ہے حالانکہ زیادہ تر دہشتگرد کراچی کی جانب آئے ہیں جس کے نتیجے میں صوبائی حکومت کو سیکیورٹی کی مد میں اپنے اخراجات میں اضافہ کرناپڑاہے ۔
انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 148 میں ہے کہ وفاقی حکومت امن و امان کو برقرار رکھے لہٰذا وفاقی حکومت سیکوریٹی پر اٹھنے والے اضافی اخراجات واپس کرے۔
انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقے اب کے پی کے کا حصہ بن چکے ہیں اور صوبے کا یہ موقف ہے کہ اس کی آبادی میں اضافے کی بنیاد پر این ایف سی دیا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 161 کے تحت منقسم پول سے صوبوں کا حصہ کم نہیں کیاجاسکتا
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے نیشنل فنانس کمیشن(این ایف سی) کے6 فروری کو اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس کی تیاری کے حوالے سے ایک اجلاس کی صدارت کی ۔انہوں نے کہا کہ این ایف سی میں کارکردگی کا معیار اور شرح میں اضافے کے حوالے سے آبادی کو اہمیت دی گئی ہے جبکہ اسے کم کرکے ریونیو جنریشن کو زیادہ اہمیت دی جانی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ وہ اپنی محکمہ خزانہ ،منصوبہ بندی و ترقیات اور سندھ بورڈ آف ریونیو کی ٹیم کے ساتھ مشاورت کے ذریعے آئندہ این ایف سی اجلاس کے لیے سندھ کا کیس تیار کررہے ہیں ۔
اجلاس میں وزیراعلیٰ سندھ کے پرنسپل سیکریٹری ساجد جمال ابڑو، سیکریٹری خزانہ نجم شاہ، سینئر ممبر ایس آر بی نور عالم، ڈاکٹر اسد سید، چیف اکنامسٹ آف ایس آر بی ڈاکٹر نعیم ظفر ، ایس آر بی کنسلٹنٹ مشتاق کاظمی کنسلٹنٹ، نواز لغاری، کنسلٹنٹ این ایف سی قاضی مسعود ، ایڈیشنل سیکریٹری فنانس ڈاکٹر اشرف واسطی اور ڈائریکٹر این ایف سی الطاف سومرو نے شرکت کی۔
انہوں نے کہا کہ ہول سیلز اور ریٹیل سیلز خدمات کی کیٹیگری میں آتی ہیں مگر وفاقی بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) ان پر سیلز ٹیکس وصول کررہا ہے۔سندھ ریونیو بورڈ (ایس آر بی) بہتر طریقے سے ٹیکس وصول کرسکتا ہے۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ اشیاء پر سیلز ٹیکس ایس آر بی کو جمع کرنا چاہیے کیونکہ وہ اس حوالے سے زیادہ فعال ہے۔ ایس آر بی ایف بی آر کی جانب سے یہ ٹیکس جمع کرسکتا ہے اور اس پر سروس چارج مقرر کرسکتاہے۔
انہوں نے کہا کہ اسی طرح وفاقی حکومت متروکہ املاک پر کیپیٹل گین ٹیکس (سی جی ٹی) جمع کرتی ہے۔سی جی ٹی کا نفاذ انکم ٹیکس آرڈیننس کی بنیاد پر کیاجاتاہے۔
انہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے تحت یہ ٹیکس صوبوں کو تفویض ہونا چاہیے۔وزیراعلیٰ سندھ نے گیس انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس(جی آئی ڈی سی) کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ جی آئی ڈی سی کو صوبوں کو منتقل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ صوبائی سبجیٹ ہے ۔سندھ حکومت کو جی آئی ڈی سی کے تحت اب تک وفاقی حکومت کی جانب سے جمع کی گئی رقم سے اس کا جائز حصہ دیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ خام تیل اور قدرتی گیس پر ایکسائز ڈیوٹی آئین کے آرٹیکل 161 کے تحت صوبوں کو تفویض کیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وہ وفاقی حکومت سے بات کریں گے اور ان پر زور دیں گے کہ قدرتی گیس پر ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ساتویں این ایف سی میں دس روپے فی ایم ایم بی ٹی یو مقرر کی گئی تھی اور اسے محصول کے حساب سے چارج کیا جانا چاہیے۔
خام تیل /قدرتی گیس پر رائلٹی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مراد علی شاہ نے کہا کہ وفاقی حکومت خام تیل /قدرتی گیس پر رائلٹی جمع کرتی ہے اور اپنی وصولیوں کا 2 فیصد بطور کلیکشن فی کےچارج کرتی ہے۔
انہوں نےکہا کہ اب صوبوں کو چاہیے کہ انہیں خود ٹیکس جمع کرنے کی اجازت دی جائے ۔مراد علی شاہ نے اوکٹرائے اور ضلع ٹیکس (او زیڈ ٹی) پر اپنی حکومت کے موقف بتاتے ہوئے کہا کہ اوکٹرائے ایک کنزمشن(Consumption) ٹیکس ہے اور سندھ کا حصہ 46 فیصد ہے اور جب سے انہوں نے اسے جمع کرنے کا خود انتظام کیا تووفاقی حکومت آگے آئی اور سندھ سے کہا کہ وہ او زیڈ ٹی جمع کرنا بند کردے اور اس کے بدلے اس کی تلافی وفاقی حکومت کرے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس مقصد کے لیے وفاقی حکومت نے سیلز ٹیکس کی شرح12.5 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کردی اور اضافی 2.5 فیصد ٹیکس بطور صوبوں کے معاوضہ کے طور پر استعمال ہونا تھا۔
انہوں نے کہا کہ سال 2010 ء میں وفاقی حکومت نے این ایف سی ایوارڈ جوکہ آبادی وغیر ہ کی بنیاد پر تھا پر او زیڈ ٹی کی مد میں فنڈز منتقل کرنا شروع کیے جس سے سندھ کا حصہ 0.66 فیصد تک کم ہوگیا۔ انہوں نے وفاقی حکومت زور دیا کہ وہ او زیڈ ٹی میں سندھ کا حصہ کم از کم 2 فیصد تک بڑھائیں ۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ ایف بی آر کو چاہیے کہ وہ مقررہ منقسم پول سے ٹیکس حاصل نہ کرنے پر جرمانہ عائد کرے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ رعایت دینے ، سیلز اور دیگر ٹیکسس بالخصوص صنعتوں کے لیے کمی کرنے،ٹیکسوں کی شرح کوتبدیل یا ختم کرنے کے حوالے سے صوبوں سے مشاورت کی جانی چاہیے۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ صوبوں سے مشاورت کے بغیر ایل این جی پر 5 فیصد سیلز ٹیکس کم کردیاگیا۔انہوں نے تجویز پیش کی کہ ٹیکس اخراجات (مثال کے طورپراستثنیٰ،کٹوتیاں یا کریڈٹس) کو کم کیا جانا چاہیے۔
ٹیکس ریفارم پر ایک اور تجویز دیتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی ٹیکس کلیکشن کو حقیقت پسندانہ بنانے ، دونوں سطحوں پر ٹیکس بیس کو فروغ دینا۔ڈپلیکیٹ ٹیکسیشن کا خاتمہ اور وفاقی اور صوبائی سطح پر ریونیو جنریشن پر اسٹڈی کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور بین الاقوامی ماہرین کی مشترکہ کمیٹی تشکیل دیا جائے۔
انہوں نے چند بین الاقوامی مثالیں پیش کرتے ہوئے کہا کہ آسٹریلیا میں ہوریزنٹل فسکل ایکیولائزیشن دی، بیلیجیئم نے نیشنل سولڈیریٹی انٹروینشن دی، کینیڈا نے فسکل کیپیسٹی ایکیولائزیشن (ایف سی ای) دی، جرمنی نے پوسٹ یونیفیکیشن ایکیولائزیشن پیمنٹس دیں ۔
انہوں نے کہا کہ یہ ترغیبات غیر معینہ مدت کے لیے نہیں دی جاسکتی اور یہ وقتی ضروریات کے مطابق ہوتی ہیں جیسا کہ جرمنی میں ایکیولائزیشن سسٹم 2020 میں ختم ہوجائے گا۔