ترک صدر طیب اردگان نے شمالی شام میں کردوں کیخلاف فوجی کارروائی روکنے کے امریکی مطالبے کو مسترد کردیا۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق ترک صدر طیب اردگان نے امریکی صدر کی تجارتی پابندیوں اور دھمکیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے شمالی شام کے کردوں کے خود مختارعلاقوں تل ابیض، راس العین اور منبج میں ترک فوج کی پیش قدمی اور حملے بند کرنے سے انکارکردیا ہے۔
ترک صدر طیب اردگان نے آذربائیجان میں صحافیوں سے گفتگو میں امریکی صدر کے شمالی شام میں ترک فوج کو حملوں سے باز رہنے کی تاکید پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ترکی پر تجارتی پابندیاں لگائی گئی ہیں، دھمکیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے لیکن ہمارا مقصد شامی پناہ گزینوں کی ان کے علاقوں میں بحفاظت واپسی اور دہشت گردی کا خاتمہ ہے۔
ترک صدر نے مزید کہا کہ اگر شامی پناہ گزینوں کو ان کے گھروں میں واپس نہیں بھیجا گیا، دہشت گردی ختم نہیں کی گئی تو یہ عفریت یورپی ممالک سمیت پوری دنیا میں سر اُٹھائے گا، مقصد کے حصول کے بغیر جنگ بندی نہیں کریں گے، چاہے اس کے لیے کتنی پابندیوں اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑے۔ یہ فیصلہ صرف ترک حکومت کا نہیں بلکہ پوری قوم کا ہے۔
دوسری جانب شام کے حکومتی فوج کے دستے اپنے سخت حریف کردوں کی ترک فوج کیخلاف مدد کرنے کے لیے سرحدی شہر مَنبج پہنچنا شروع ہو گئے اوراب منبج کی کئی عمارتوں پر شام کا پرچم لہرا رہا ہے۔ شامی فوج اور کردوں کے درمیان ترک فوج کے خلاف عسکری اتحاد قائم کرانے میں روسی صدر نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔