نوازشریف فیصلے کے خلاف امیگریشن ٹربیونل میں اپیل کرسکتے ہیں۔فائل فوٹو
نوازشریف فیصلے کے خلاف امیگریشن ٹربیونل میں اپیل کرسکتے ہیں۔فائل فوٹو

نواز شریف کے وکیل نے علاج کے بعد وطن واپسی کا بیان حلفی جمع کرا دیا

نواز شریف کے وکیل نے علاج کے بعد وطن واپس آنے اور مقدمات کا سامنا کرنے کے بیان حلفی کا مسودہ ہائی کورٹ میں جمع کرادیا۔

جسٹس علی باقرنجفی اورجسٹس سرداراحمد نعیم پر مشتمل لاہورہائی کورٹ کا 2 رکنی بنچ سابق وزیر اعظم نوازشریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے حکومتی شرائط کے خلاف شہباز شریف کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کررہا ہے۔ سماعت کے دوران صدرمسلم لیگ (ن) شہباز شریف کے علاوہ پارٹی کے کئی رہنما بھی موجود ہیں۔

سماعت کے آغاز پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ای سی ایل سے نام نکالنے کے لیے شرائط لگائی جا سکتی ہیں؟ کیا لگائی گئی شرائط علیحدہ کی جا سکتی ہیں؟ کیا میمورنڈم انسانی بنیادوں پر جاری کیا گیا؟  ضمانت کے بعد شرائط لاگو ہوں تو کیا عدالتی فیصلے کو تقویت ملے گی؟۔

کیا درخواست گزار ادائیگی کے لیے کوئی اور طریقہ ڈھونڈنے کو تیارہے؟ حکومت اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنا چاہتی ہے یا نہیں ؟ کیا فریقین نواز شریف کی واپسی سے متعلق یا کوئی رعایت کی بات کر سکتے ہیں؟  کیا فریقین اپنے انڈیمنٹی بانڈز میں کمی کر سکتے ہیں؟۔

سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ نواز شریف علاج کیلیے باہرجانا چاہتے ہیں تو حکومت کو کوئی اعتراض نہیں لیکن نواز شریف کو باہر جانے سے پہلے عدالت کو مطمئن کرنا ہوگا، ان کے پاس یہ آپشن ہے کہ اینڈیمنٹی یا شورٹی بانڈ کی رقم عدالت کے اکاونٹ پاس جمع کرادیں اگر یہ تمام چیزیں پوری کردیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا، اس موقع پرانہوں نے وفاقی حکومت کی جانب سے انڈیمنٹی بانڈ لاہور ہائی کورٹ میں جمع کروانے کی پیشکش کردی۔

عدالت نے شہبازشریف سے استفسارکیا کہ کیا نوازشریف واپس آئیں گے، جس پرشہبازشریف نے کہا کہ انشاءاللہ واپس لائیں گے، عدالت نے مزید استفسار کیا کہ آپ کا انہیں ملک واپس لانے میں کیا کردار ہوگا، جس پرانہوں نے کہا کہ میں ان کے ساتھ بیرون ملک جارہا ہوں وہ علاج کے بعد واپس آئیں گے۔

لاہورہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ قانون اپنی روح کے مطابق کام کرتا ہے، جو حلف یہ دینا چاہتے ہیں ان سے لکھ کرپوچھ لیتے ہیں، ہم درخواست گزارسے لکھ کرحلف لے لیتے ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے عدالت نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ انڈرٹیکنگ عدالت کو جمع کرائی جائے گی۔ عدالت نے وفاق سے استفسار کیا کہ اگرآپ انسانی بنیادوں پر نواز شریف کو جانے کی اجازت دے رہے ہیں تو پھرشرائط لگانے کی کیا ضرورت ہے، عدالت چاہ رہی ہے کہ یہ معاملہ حل ہو۔

عدالت نے کہا کہ ہم نواز شریف اور شہباز شریف سے لکھ کر انڈرٹیکنگ لے لیتے ہیں وفاق اس انڈر ٹیکنگ کو دیکھ لے، یہ انڈر ٹیکنگ عدالت میں دی جائے گی اگرانڈرٹیکنگ پر پورا نہیں اترا جاتا تو توہین عدالت کا قانون موجود ہے۔

نواز شریف کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ جو شرائط بھی عائد کی گئی ہیں وہ عدالت کے ذریعے ہونا چاہیے تھیں،اگر عدالت کو مطمئن کرنے کی بات ہے تو جو عدالت حکم دے گی ہمیں قبول ہوگا۔

وکیل نواز شریف نے کہا کہ جب عدالت میں کیس زیرسماعت ہو تو ریاست کا اختیار نہیں کہ سزا ختم کرے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے 6 ہفتے کی سزا معطل کی لیکن بیرون ملک جانے پر پابندی لگائی، عدالتی اورسیاسی تاریخ میں ایسی مثال نہیں کہ سزا یافتہ شخص واپس آئے اور سزا کاٹ رہا ہو۔

نوازشریف کے ایک اور وکیل اشتر اوصاف نے کہا کہ آرٹیکل 4 کے مطابق کسی شہری پر شرط عائد نہیں کی جا سکتی جس پر جسٹس باقر نجفی نے ریمارکس دیئے کہ قانون تو سزا یافتہ کو باہر بھیجنے کا اختیار حکومت کو بھی نہیں دیتا، ہم چاہتے ہیں یہ معاملہ اتفاق رائے سے طے ہو، لکھ کر دیں کہ نوازشریف اور شہبازشریف وطن واپس آئیں گے۔

عدالتی ہدایت کی روشنی میں امجد پرویز ایڈووکیٹ نے نواز شریف اور شہباز شریف کے بیان حلفی کا مسودہ لاہور ہائی کورٹ کے معاون کے حوالے کر دیا۔ بیان حلفی کا ڈرافٹ 2 صفحات پر مشتمل ہے جس میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف صحت یاب ہوتے ہی وطن واپس آئیں گے اور عدالتی کیسز کا سامنا کریں گے۔

 دوسری جانب ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق احمد خان نے شہبازشریف کا بیان حلفی مسترد کردیا، انہوں نے موقف اختیار کیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے خاص مدت کے لیے نواز شریف کی ضمانت منظور کی ہے، اس بیان حلفی میں کسی قسم کی ضمانت نہیں دی گئی، ایسی صورت میں ہم اس کو کیسے تسلیم کرسکتے ہیں۔ 25نومبرکو اسلام آباد ہائیکورٹ میں نواز شریف کیس کی اپیل بھی مقرر ہے،  اگر نواز شریف نہیں آتے تو کیا ہو گا اس لیے اینڈیمنٹی بانڈ مانگے ہیں۔
اشتیاق احمد خان نے کہا کہ نواز شریف اور شہباز شریف کے ڈرافٹ کے جواب میں حکومت نے بھی ایک ڈرافٹ تیار کیا ہے، حکومت جب سمجھے گی کہ نواز شریف کی حالت ٹھیک ہے تو حکومت اپنا بورڈ ملک سے باہر چیک اپ کے لیے بھیج سکتی ہے، بورڈ یہ چیک کرے گا کہ نواز شریف سفرکرکے ملک میں واپس آ سکتے ہیں یا نہیں۔

درخواست کی سماعت کے دوران شہبازشریف نے ٹیلی فون پرنواز شریف، مریم نواز اور اپنی والدہ سے مشاورت کی۔ اس دوران نواز شریف نے کہا کہ ای سی ایل سے ان کا نام نکالنے کے لیے حکومتی شرط غیر قانونی ہے، عدالت کا ہر فیصلہ سر آنکھوں پر ہوگا، عدالتی احکامات پر من وعن عمل کیا جائے گا۔