امت رپورٹ:
قومی اسمبلی کے حلقہ 75 ڈسکہ (سیالکوٹ) سے بیس پولنگ اسٹیشنوں کے لاپتہ ہونے والے پریذائیڈنگ افسروں نے اغوا کرنے والوں کے نام یا ان کی شناخت ظاہر کرنے سے انکار کردیا ہے۔
واضح رہے کہ ضلع سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ میں ہونے والے صمنی انتخاب کے بعد ریکارڈ سمیت بیس سے زائد پریذائیڈنگ افسر اچانک لاپتہ ہوگئے تھے۔ گھنٹوں غائب رہنے کے بعد ہفتے کی صبح چھ بجے ان پریذائیڈنگ افسران کی واپسی ہوئی تھی۔ جس پر نتائج میں ردوبدل کے خدشے پر الیکشن کمیشن نے مذکورہ حلقے کے غیر حتمی نتیجے کا اعلان روک دیا تھا۔ جبکہ حلقہ این اے 75 کے ضلعی ریٹرننگ افسر کو اس معاملے کی تفصیلی رپورٹ الیکشن کمیشن میں جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔ تاکہ اصل ذمہ داران کا تعین کیا جاسکے۔
الیکشن کمیشن کی ہدایات کی روشنی میں ہفتے کے روز ضلعی ریٹرننگ افسر نے اپنی ابتدائی تفصیلی رپورٹ الیکشن کمیشن میں جمع کرادی۔ اس رپورٹ کے مندرجات کو دیکھنے کے بعد چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان خواجہ نے منگل تک حتمی نتیجہ جاری نہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ جبکہ اسی روز اس کیس کی سماعت بھی کی جائے گی۔ الیکشن کمیشن کے ذرائع کے مطابق جن پولنگ اسٹیشنوں کے پریذائیڈنگ افسروں کو غائب کیا گیا تھا، ریٹرننگ افسر کی تفصیلی رپورٹ میں ان پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج میں گڑبڑ کے شواہد موجود ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان خواجہ نے ناصرف منگل تک حتمی نتیجہ جاری نہ کرنے کا حکم دیا ہے، بلکہ معاملے کی تحقیقات کے لئے سماعت کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ریٹرننگ افسر کی تفصیلی رپورٹ میں مگر یہ ذکر نہیں کیا گیا کہ ان پریذائیڈنگ افسروں کو، جنہیں بظاہر پولیس کی حفاظت میں ووٹوں کے سیل شدہ بیگوں اور دیگر اہم ریکارڈ سمیت ریٹرننگ افسر کے دفتر پہنچنا تھا، کون زبردستی بمعہ ریکارڈ اپنے ساتھ لے گیا تھا۔ نہ ہی رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ کئی گھنٹوں تک ان پریذائیڈنگ افسروں کو کہاں رکھا گیا۔ اور اس دوران کیا ہوتا رہا۔
ذرائع کے بقول مذکورہ تمام پریذائیڈنگ افسر اس بارے میں تاحال کچھ بتانے پر تیار نہیں۔ جبکہ انہیں میڈیا سے دور رہنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔ تاہم خیال کیا جارہا ہے کہ منگل کے روز الیکشن کمیشن میں اس کیس کی سماعت کے دوران ان سارے سوالات کے جواب اور کئی اہم انکشافات سامنے آسکتے ہیں۔ کیونکہ ذرائع کے مطابق چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان خواجہ نے کسی دباؤ کے بغیر اصل ذمہ داران کو سامنے لانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔
ضمنی الیکشن کی شام ساری رات الیکشن کمیشن میں گزارنے والے چیف الیکشن کمشنر نے ان خیالات کا اظہار وہاں موجود سیکریٹری الیکشن کمیشن اور دیگر عملے کے سامنے بھی کیا۔ ذرائع کے بقول قوی امکان ہے کہ جس طرح سینیٹ الیکشن کی خفیہ ووٹنگ کے آئینی معاملے پر چیف الیکشن کمشنر نے سپریم کورٹ میں اپنے اصولی موقف کو برقرار رکھا ہوا ہے، اسی طرح اب وہ حلقہ 75 کے ضمنی انتخاب کے موقع پر لاپتہ ہونے والے پریذائیڈنگ افسروں کے معاملے کی تہہ تک بھی پہنچیں گے۔ منگل کو اس معاملے کی سماعت سے ایک روز پہلے ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ تاکہ پریذائیڈنگ افسروں کے تحفظ میں پولیس اور انتظامیہ کی ناکامی کا تعین کرکے ذمہ داران کو بے نقاب کیا جا سکے۔
جن پولنگ اسٹیشنوں کے پریذائیڈنگ افسروں کو غائب کیا گیا، ان میں پولنگ اسٹیشن نمبر دو، تین، چھ، سات، آٹھ، 146، نوے، اکیانوے، بیانوے، اکیاون، پچاس ، انچاس ، سینتالیس، پینتالیس، بائیس، تیس، چوبیس، چھبیس، نو اور گیارہ نمبر پولنگ اسٹیشن شامل ہیں۔ لیگی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ جن علاقوں میں یہ پولنگ اسٹیشن واقع ہیں، وہاں کثیر تعداد میں نون لیگ کا ووٹ بینک موجود ہے۔
نون لیگی رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے دعویٰ کیا ہے کہ پریذائیڈنگ افسروں کو سادہ کپڑوں اور سویلین گاڑیوں میں آئے افراد رات کی تاریکی میں لے کر غائب ہوئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پریذائیڈنگ افسروں کو لاپتہ کرنے والے زمینی مخلوق کے لوگ نہیں تھے۔ ڈسکہ میں موجود ’’امت‘‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ نون لیگ نے یہ نتیجہ حلقے میں موجود اپنے ووٹرز اور سپورٹرز کے بیانات کی روشنی میں نکالا ہے۔ پارٹی کے ان ووٹرز نے اپنی قیادت کو بتایا ہے کہ پریذائیڈنگ افسروں کو لے جانے والے سادہ کپڑوں والے تھے۔
’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق یہ تمام پریذائیڈنگ افسر بمعہ ریکارڈ پولیس کی ’’حفاظت ‘‘ میں ہی ریٹرننگ آفس کی طرف روانہ ہوئے تھے۔ تاہم یہ بات تاحال تفتیش طلب ہے کہ آیا راستے میں انہیں کسی اور نے اپنی تحویل میں لے لیا تھا یا وہ تمام وقت پولیس کی کسٹڈی میں رہے۔ جب تک پریذائیڈنگ افسر خود اس بارے میں لب کشائی نہیں کرتے، حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہوگا۔
اس سارے معاملے کا پس منظر بیان کرتے ہوئے اسلام آباد میں موجود ذرائع نے بتایا کہ پی ٹی آئی حکومت نے این اے 75 ڈسکہ (سیالکوٹ) کی نشست کو مارک کر رکھا تھا۔ یعنی یہ سیٹ جیتنے کی منصوبہ بندی پہلے سے کی جاچکی تھی۔ کیونکہ 2002ء کے الیکشن کے سوا یہ سیٹ قریباً پچھلی تین دہائیوں سے نون لیگ جیتتی چلی آئی ہے۔ 2018ء کے عام انتخابات میں بھی ضلع سیالکوٹ میں قومی اسمبلی کی پانچوں نشستیں نون لیگ نے جیتی تھیں۔
ذرائع کے مطابق ضمنی الیکشن میں سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ کی سیٹ جیت کر پی ٹی آئی حکومت اس تاثر کو گہرا کرنا چاہتی تھی کہ نون لیگ کے مضبوط سیاسی گڑھ میں بھی اس کا ووٹ بینک متاثر ہوچکا ہے۔ اس بنیاد پر حلقہ 75 میں قومی اسمبلی کی اس نشست پر ضمنی انتخاب جیتنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگائی گئی۔ جس کے تحت حلقے کی بااثر مغل برادری کو توڑا گیا۔ مغل برادری پچھلے پچیس تیس برس سے نون لیگ کو سپورٹ کرتی چلی آرہی تھی۔ اس حلقے میں مغل برادری کا ووٹ بینک ہمیشہ کلیدی رول ادا کرتا آیا ہے۔ پھر پی ٹی آئی کے رہنما اعجاز چوہدری نے ضمنی انتخاب سے پندرہ روز پہلے ہی ڈسکہ میں ڈیرے ڈال لیے۔ بعد ازاں وزیراعظم عمران خان کے مشیر عثمان ڈار کو مستعفی کرا کے حلقے کے عوام کو متحرک کرنے کے لئے بھیجا گیا۔ ذرائع کے بقول خود وزیراعظم کی اس نشست کو جیتنے میں دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے گزشتہ ماہ اپنی پارٹی کے ان تمام امیدواروں کو خصوصی ملاقات کے لئے بلایا، جنہوں نے حلقہ این اے 75 کے ضمنی الیکشن کے لیے ٹکٹ اپلائی کیا ہوا تھا۔ اس موقع پر ان تمام امیدواروں کو مختلف لالی پاپ دے کر علی اسجد ملہی کی حمایت پر قائل کیا گیا۔ واضح رہے کہ ضمنی انتخاب میں نون لیگ کی امیدوار سیدہ نوشین افتخار کے مدمقابل علی اسجد ملہی تھے۔
ذرائع کے مطابق نوشہرہ میں نون لیگ کے ہاتھوں اپ سیٹ شکست کے بعد حکمراں پی ٹی آئی کے لئے ڈسکہ کی سیٹ جیتنا مزید ضروری ہوگیا تھا۔ تاکہ خیبر پختون میں بنی گالہ جیسی اہمیت رکھنے والے نوشہرہ کے اہم حلقے میں ہونے والی شکست کو کاؤنٹر کیا جاسکے۔ لہٰذا جب الیکشن سے قبل کی گئی تمام تدابیر کے باوجود یہ سیٹ ہاتھوں سے نکلتی دکھائی دی تو پھر عجلت میں پریذائیڈنگ افسروں کو اغوا کرکے مقصد حاصل کرنے کی بھونڈی کوشش کی گئی۔ یہ حربہ اب حکومت کے گلے پڑگیا ہے۔
ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ الیکشن کے موقع پر سارا دن اور رات گئے تک حلقے میں موجود پی ٹی آئی کے امیدوار علی اسجد ملہی اور عثمان ڈار مسلسل لاہور کے ایک اہم حکومتی دفتر کے ساتھ رابطے میں رہے۔ اور لمحے لمحے کی رپورٹ بھجواتے رہے۔ ضمنی انتخاب میں بدلتی صورتحال سے متعلق پہنچائی جانے والی اس انفارمیشن کے جواب میں ڈسکہ کی مقامی انتظامیہ کو لاہور سے ہدایات ملتی رہیں۔