علی مسعود اعظمی:
امریکا سے ڈیل ہونے کے باوجود ہرات کے ملیشیا کمانڈر اسماعیل خان نے اپنے جنگجوئوں کو ہرات کے اندر سرکاری چوکیوں پر ہی تعینات کر رکھا ہے۔ امریکی عسکری کمانڈرز اور سی آئی اے کا مطالبہ ہے کہ اسماعیل خان کے جنگجو، سرکاری فورسز کے ساتھ مل کر طالبان مجاہدین کیخلاف پیش قدمی کریں۔ تاہم اسماعیل خان نے اپنے کرائے کے جنگجوئوں کو حملوں کے بجائے، دفاعی پوزیشن ہی پر رکھا ہوا ہے۔
اسماعیل خان کی جانب سے افغان نیشنل آرمی اور کابل حکومت پر واضح کیا گیا ہے کہ وہ ہرات کی حفاظت کیلیے چوکیوں میں بیٹھے ہیں، لیکن کسی بھی صورت میں طالبان مجاہدین کے مقابلہ میں افغان افواج کے شانہ بشانہ کھڑے نہیں ہوں گے۔ افغان صحافی ثریا رئیس زادہ کے مطابق افغان فوج کے ترجمان جنرل اجمل عمر شنواری نے دعویٰ کیا ہے کہ بہت جلد افغان مسلح افواج کو معاون ملیشیائوں کی معیت میں طالبان کے خلاف بھیجا جائے گا اور تمام زیر قبضہ علاقے واگزار کروائے جائیں گے۔ لیکن کوئی بھی جنگجو کمانڈر اپنی ملیشیائوں کو طالبان مجاہدین کے مقابلہ میں افغان افواج کے ساتھ ملا کر بھیجنے پر تاحال رضامند نہیں ہے۔ اگرچہ ہرات کے جنگجو کمانڈر اسماعیل خان نے طالبان مجاہدین کا مقابلہ کرنے کا ’’نمائشی عندیہ‘‘ دیا ہے۔ لیکن اس کی ملیشیا صرف ہرات کے دفاع تک محدود ہے۔ جبکہ جوزجانی ملیشیا کے سربراہ عبد الرشید دوستم اور مزار شریف میں محصور جنگجو کمانڈر عطا نور نے بھی اب تک طالبان مجاہدین کیخلاف اپنی ممکنہ جنگی مہم کے بارے میں خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔
افغان ذرائع کے مطابق جنگجو کمانڈر اپنی افرادی قوت کو مجتمع اور اسلحہ و آلات کو منظم کرنے کا کام کر رہے ہیں۔ ساتھ ساتھ ان کی سی آئی اے کے ساتھ گفت و شنید اور مذاکرات بھی جاری ہیں۔ پینٹاگون حکام کو گمان ہے کہ وہ کرائے کی ملیشیائوں کو بھی طالبان مجاہدین کے مقابلہ میں کھڑا کرنے کیلیے رضامند کرلیں گے۔ لیکن کسی بھی ملیشیا کمانڈر نے افغان افواج کے ساتھ مل کر طالبان طالبان سے لڑنے کا جوکھم اُٹھانے سے معذرت کرلی ہے۔ حالاں کہ امریکی عسکری کنٹریکٹرز اور سیکرٹ ایجنٹس نے ان کو طالبان مجاہدین کیخلاف کارروائیوں پر رضامند کرنے کیلئے بھاری اسلحہ، ایمونیشن، ڈالر اور فضائی مدد فراہم کرنے کی پیشکش بھی کی ہے۔
افغان نیوز پورٹل ’’پژواک‘‘ کا کہنا ہے کہ جنگجو کمانڈر اسماعیل خان کی ملیشیا کو ہرات ہی میں رکھا گیا ہے اور اس کو ایرانی سرحدات کے پاس طالبان مجاہدین کی مسلسل فتوحات کے تناظر میں سرحدی علاقوں میںتعینات کیا گیا ہے۔ کیونکہ اسماعیل خان کو خدشات ہیں کہ طالبان مجاہدین اس کیخلاف کسی بھی وقت کارروائی کرسکتے ہیں۔ ہرات میں مقیم تجزیہ نگاروں کا کہناہے کہ طالبان مجاہدین کے دستے ہرات سے صرف 120 کلومیٹر کی دوری پر اسلام کلہ میں موجود ہیں، جس سے ہرات میں تنائو پایا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ ناروے کے تھنک ٹینک ’’میکلسن انسٹیٹیوٹ‘‘ کے تجزیہ نگار انتونیو ڈیلوری نے سی آئی اے کو افغانستان میں مسلح ملیشیائوں کو کھڑا کرنے کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔ انتونیو کے مطابق یہی جنگجو ملیشیائیں افغانستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور قتل و غارت گری کی وارداتوں میں ملوث ہیں۔ اب جبکہ طالبان مجاہدین کی فتوحات سے کٹھ پتلی اشرف غنی حکومت پریشان ہے تو سی آئی اے اور پینٹاگون کی بھرپور کوشش ہے کہ طالبان مخالف تمام جنگجو سرداروں اور ملیشیائوں کو منظم و مسلح کیا جائے۔
دوسری جانب طالبان مجاہد کمانڈرز واضح کرچکے ہیں کہ ان کا مطمع نظر شہروں اور ضلعی ہیڈ کوارٹرز پر حملہ یا قبضہ کرنا بالکل نہیں ہے۔ لیکن اس اعلان کے باوجود ہرات کے کمانڈر اسماعیل، جوزجان کے عبد الرشید دوستم، مزار شریف کے کمانڈر عطا اور پنج شیر کے احمد مسعود کے قلوب میں بیٹھے خوف نے ان کو طالبان مجاہدین کے مقابلہ میں دفاعی پوزیشن پر لا کھڑا کیا ہے۔ مزار شریف میں بیٹھے جنگجو کمانڈر عطا نور کا ایک غیر ملکی ایجنسی کو انٹرویومیں کہنا تھا کہ وہ حیران ہیں کہ ایک ہی دن میں بدخشاںمیں 19اضلاع کس طرح طالبان نے فتح کرلیے؟ عطا نور کا کہنا تھا کہ امریکا نے انتہائی غیرذمہ داری کا ثبوت دیاہے اور افغان افواج کو تنہا چھوڑ بھاگا ہے۔ افغان صحافی مصطفی سرورکا کہنا ہے کہ امریکا کی بھرپور کوشش تھی کہ وہ علاقائی جنگجو کمانڈرز کو متحد کرکے طالبان کو لڑائیوں میں الجھا دیں اور خانہ جنگی کا ماحول گرم کردیں۔ لیکن ہو یہ رہا ہے کہ کرائے کی ملیشیائوں میں طالبان مجاہدین کا سامنا کرنے کی سکت نہیں ۔