کراچی۔ پاکستانی صحافت کا درخشندہ ستارہ ڈوب گیا۔ اردو صحافت میں تحقیقاتی رپورٹنگ کو جلا بخشنے والا آفتاب غروب ہو گیا۔ امت گروپ آف پبلی کیشنز کے ایڈیٹر انچیف اور بانی مدیر عبدالرفیق افغان پیر کو نماز فجر کے وقت رب کے حضور پیش ہو گئے۔ وہ عیدالاضحی کے دوسرے روز اسپتال منتقل ہوئے تھے جہاں مختصر علالت کے بعد پیر کی صبح داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ اناللہ اناالیہ راجعون۔ یوں پاکستانی صحافت میں جرأت و شجاعت کا ایک باب بند ہو گیا۔
رفیق افغان نے اسی کی دہائی میں عملی صحافت کا آغاز ہفت روزہ تکبیر سے کیا جس کے مدیر محمد صلاح الدین ان کے والد نسبتی بھی تھے۔ یوں انہیں صحافت میں دیانت۔ جرأت اور صداقت کی علامت سمجھے جانے والے استاد کی صحبت میسر آئی جس نے ان کی شخصیت کی تراش خراش اور پیشہ ورانہ استعداد بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ نوے کی دہائی کے وسط میں محمد صلاح الدین دفتر تکبیر کے سامنے دہشت گردوں کی فائرنگ سے شہید ہو گئے جس کے بعد حق و صداقت کا علم ان کے شاگرد رفیق افغان نے اٹھایا۔
1996ء میں روزنامہ امت کی اشاعت کا آغاز کر کے صلاح الدین شہید کے خواب کو عملی تعبیر دی۔ یہ وہ دور تھا جب کراچی میں دہشت اور وحشت کا سورج سوا نیزے پر تھا۔ ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، بوری بند لاشیں، ہڑتالیں اور مار دھاڑ روز کا معمول تھا۔ تب رفیق افغان کی قیادت میں امت کی ٹیم نے زمینی خداؤں کو للکارا اور اپنی جرأت مندانہ رپورٹنگ کے ذریعے ان کے کرتوت بے نقاب کیے۔ ایم کیو ایم کے گڑھ لیاقت آباد سے ”امت عوامی عدالت“ کا آغاز کر کے شہر کو یرغمال بنانے والوں کے جرائم سے پردہ اٹھانے کا سلسلہ شروع کیا۔ بعد میں یہ عوامی عدالت مقبولیت کی بلندیوں تک پہنچی۔ رفیق افغان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے اردو صحافت میں تحقیقاتی رپورٹنگ کو نئی جہت دی اور دو تین برسوں کے اندر ہی روزنامہ امت تحقیقاتی رپورٹنگ کی علامت اور مزاحمتی صحافت کا استعارہ بن گیا۔
امت نے سیاسی، مذہبی رہنماؤں کے بیانات کے بجائے عام آدمی کے مسائل کو اپنا موضوع بنایا۔ غریب کا روزہ۔ سونے کے ہاتھ۔ میرے کہانی اور عوامی عدالت جیسے مقبول سلسلے رفیق افغان کی تخلیقی صلاحیتوں کی علامت بن گئے اور مختصر وقت میں امت سندھ کا دوسرا بڑا اور پاکستان کا اہم قومی اخبار بن گیا۔ بعدازاں اس کی اشاعت کراچی کے علاوہ حیدرآباد، راولپنڈی، اور پشاور سے بھی شروع کر دی گئی۔ رفیق افغان نے بطور صحافی اور مدیر وطن عزیز کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کے محافظ کا کردار ادا کیا۔ وہ اسلام اور پاکستان کے معاملے میں کسی سمجھوتے کے قائل نہ تھے اور اس کے لیے انہوں نے اپنے ادارے کو ایک نظریئے اور تحریک کی شکل دی۔ کمرشل ازم کے بجائے مقصدیت کو مقدم جانا۔ سگریٹ نوشی اور دیگر اخلاق باختہ مصنوعات کے اشتہارات کا بائیکاٹ کر کے کروڑوں کا نقصان اٹھا لیا مگر اصول اور نظریئے پر سمجھوتہ نہ کیا۔ کم و بیش چالیس سالہ صحافتی کیریئر کے دوران رفیق افغان نے ختم نبوت کے پاسبان اور حرمت رسول کے تحفظ کے لیے سیاسی کردار ادا کیا۔
انہوں نے خصوصی وصیت کر رکھی تھی کہ انتقال کے بعد ان کی تدفین میوہ شاہ قبرستان میں کی جائے۔ وہ فتنہ قادیانیت کے خلاف آخری سانسوں تک بے نیام تلوار کا کردار ادا کرتے رہے۔ انہوں نے اپنے اخبارات و جرائد روزنامہ امت۔ ہفت روزہ تکبیر اور ماہنامہ غازی کے ذریعے لسانی عصبیت۔ فرقہ پرستی اور گروہ بندی کو جڑوں سے اکھاڑنے کے لیے بھرپور کردار ادا کیا۔ وہ ایک وسیع المطالعہ مدیر۔ بہترین لکھاری اور انشاء پرداز تھے دوبدو کے عنوان سے ان کے کالموں نے عوام میں بے پناہ پذیرائی حاصل کی جبکہ وہ علی شیر نوائی اور ڈاکٹر ضیاالدین کے قلمی نام سے بھی لکھتے رہے اور ان کی تحریروں نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔
رفیق افغان خود نمائی سے دور اور عملی کام پر یقین رکھنے والے سادہ مزاج مگر غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل ذہین انسان تھے۔ انہوں نے امت کو اپنی انتھک محنت۔ جدوجہد اور اچھوتے آئیڈیاز کے ذریعے نہ صرف عوامی اخبار بنایا بلکہ عام قاری کی مشاورت اور فیڈ بیک کو اہمیت دے کر اخبار میں نکھار بھی پیدا کیا۔ انہیں افغان امور اور سیکورٹی ایشوز پر اتھارٹی کی حیثیت حاصل تھی۔ وہ اپنی تحریروں میں واقعے کی جزئیات اس خوب صورتی سے بیان کرتے کہ قاری اش اش کر اٹھتا۔ رفیق افغان کے بدترین مخالف بھی انہیں آج جرأت و بہادری۔ شجاعت و استقامت کی علامت اور تحیقی و مزاحمتی صحافت کا استعارہ قرار دیتے ہیں۔ رب کریم انہیں غریق رحمت کرے۔ (آمین)
کراچی (رپورٹ : سید نبیل اختر)مدیر اعلیٰ امت رفیق افغان مختصر علالت کے بعد انتقال کرگئے ۔ وہ پچھلے چند روز سے اسپتال میں زیر علاج تھے ۔ وہ پیر کی علی الصبح اپنے خالق حقیقی سے جاملے ، ان کی نماز جنازہ شہید الفتح مسجد میں سیلانی ویلفیئر انٹرنیشنل کے سربراہ مولانا بشیر فاروقی نے پڑھائی ۔ جنازے میں شہر کی سیاسی ، مذہبی شخصیات کے علاوہ صحافی برادری اور ان کے حلقہ احباب کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی ، جنازے میں رقت انگیز مناظر دیکھنے میں آئے ، ہر ایک آنکھ اشکبار تھی ۔ مدیر اعلیٰ امت کو میوہ شاہ قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا ۔
تفصیلات کے مطابق مدیر اعلیٰ امت عبدالرفیق افغان چونسٹھ برس کی عمر میں مختصر علالت کے بعد انتقال کرگئے ، عید الاضحیٰ کے دوسرے روز طبعیت بگڑنے پر انہیں ایک نجی اسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں چھ روز گزرنے کے بعدان کی طبعیت میں سدھار آنے لگا تاہم تین روز قبل اچانک ان کی طبعیت بگڑ گئی اور پیر کی علی الصبح وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔ ان کی نماز جنازہ کیلئے کڈنی ہل کی شہید مسجد الفتح کا انتخاب کیا گیا جہاں وہ مسجد کی شہادت کے بعد سے تواتر کے ساتھ نماز جمعہ ادا کرنے جاتے تھے ، مسجد کی شہادت پر مغموم تھے اور ہر وقت مسجد کی بحالی کیلئے پریشان رہتے تھے ، نماز جنازہ کا انتخاب ہوا تو مسجد الفتح کی کمیٹی کے سربراہ ہارون کو مطلع کیا گیا تاکہ وہاں نمازیوں کی بڑی تعداد کے انتظامات کیئے جاسکیں ، مسجد کمیٹی کے ارکان نے تمام انتظامات کی ذمہ داری قبول کی اور کہا کہ رفیق افغان شہید مسجد کی بحالی کیلئے پریشان رہتے تھے ، ہر جمعہ کو نماز کی کوریج کراتے اور ہمیں نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد صبر کی تلقین اور دعا کے اہتمام کا کہتے ، مسجد کمیٹی نے نماز جنازہ کیلئے بہترین انتظامات کیے ، وہیں مسجد کے ملبےسے متصل فرش پر صفیں بچھائی گئیں ۔بزرگوں کیلئے دو درجن سے زائد کرسیاں بھی رکھی گئیں تاکہ جنازے میں شامل معمر افراد کو نماز پڑھنے میں آسانی رہے ،جنازے کی نماز سے قبل ظہر کی نماز کا وقت ایک بج کر پانچ منٹ تھا ، شرکا جنازہ کیلئےدس منٹ تاخیر کی گئی تاکہ دور دراز سے آنے والے نمازی اور شہری باجماعت نماز ادا کرسکیں ۔
مسجد الفتح کے مستقل نمازیوں کے علاوہ رفیق افغان کے جنازے میں شرکت کیلئے شہر کے ہر حصے سے ان کے احباب ، صحافی اور مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی آمد کا سلسلہ جاری رہا ۔ایک بج کر دس منٹ پر سیلانی کے سربراہ مولانا بشیر فاروقی مسجد الفتح پہنچ گئے اور انہوں نے مدیر اعلیٰ امت کا جنازہ پڑھانا تھا ، تاہم مسجد کمیٹی کی خواہش پر انہوں نے نماز ظہر کی امامت بھی کی ۔باجماعت نماز کی ادائیگی کے بعد سنتوں کی ادائیگی تک لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا۔ مولانا بشیر فاروقی نے رفیق افغان کی نماز جنازہ کی امامت کی اور نماز کے بعد ان کی مغفرت اور درجات کی بلندی کیلئے دعا کرائی ۔جنازے کے بعد ہونے والی دعا میں ہر ایک آنکھ اشکبار تھی ،
کراچی کی صحافی برادری امت ٹیم کے ارکان کو صبر کی تلقین کرتی رہی، جو ا پنے مشفق استاد کے جدا ہونے پر مغموم تھے ۔ جنازے میں جماعت اسلامی سندھ کے امیر محمد حسین محنتی ، رکن صوبائی اسمبلی اور جماعت اسلامی جنوبی کے امیر سید عبدالرشید ، ترجمان جماعت اسلامی کراچی زاہد عسکری ، الخدمت کراچی کے ذمہ دار عنایت اللہ اسماعیل ، جمعیت علمااسلام کراچی کے مقامی رہنما قاری محمد عثمان ، مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین آفاق احمد ،پاکستان پیپلز پارٹی کے مقامی رہنما وقار مہدی ، روزنامہ نئی بات کے ایڈیٹر مقصود یوسفی ، چیف رپورٹر ریاض احمد ساگر، کراچی پریس کلب کے سیکریٹری محمد رضوان بھٹی ، معروف صحافی خلیل اللہ فاروقی ، آج نیوز کراچی کے بیورو چیف رفعت سعید ،روزنامہ جسارت کے سی او او سید طاہر اکبر ، پاکستان ملت کونسل کے چیئرمین طارق شاداب ، ایشین یونین فورم کے چیئرمین وسیم یاسین ،سیلانی ویلفیئر انٹرنیشنل کے سی او او محمد غزال ،ایڈوائزر امجد چامڈیا ،آباد کے ترجمان حبیب کھوکھر ، امت گروپ آف پبلی کیشن کے ایڈ منسٹریٹر عارف وسیم ، مدیر امت نصیر ہاشمی ، ایگزیکٹیو ایڈیٹر احتشام سعید قریشی ، ڈپٹی ایگزیکٹیو ایڈیٹر آصف سعود ، ڈائریکٹر مارکیٹنگ اینڈ کمیونیکیشن محمد عرفان ، نیوز ایڈیٹر محمد ذیشان اشرف و دیگر سیکڑوں احباب نے شرکت کی ۔نماز جنازہ کے بعد عالمگیر میت بس او ر پرائیوٹ گاڑیوں میں شرکا تدفین کیلئے میوہ شاہ قبرستان روانہ ہوئے ، مدیر اعلیٰ کی عالمگیر ایمبولینس میں قبرستان پہنچائی گئی ، جہاں ان کی تدفین کی گئی ۔