کراچی (رپورٹ :ارشاد کھوکھر) محکمہ خوراک کے افسران اورچور فلور ملوں کے مالکان پر مشتمل کمیشن و آٹا مافیا سستے سرکاری آٹے کی آڑ میں اربوں روپے کی سبسڈی ہتھیانے کی پالیسی میں کامیاب ہوگئی ہے۔ فلور ملوں کو مہنگے داموں پر آٹا سپلائی کرنے کی چھوٹ حاصل ہوگی جبکہ دکھاوے کی خاطر مخصوص مقامات پر سرکاری (سفارشی) آٹا 65 روپے فی کلوگرام کے حساب سے فروخت کرنے کے کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے ۔ مذکورہ آٹا عام دکانوں پر دستیاب نہیں ہو گا۔سیلاب اور مہنگائی کی صورت حال میں سستے آٹے کے حصول کے لیے لوٹ مار ، فسادات و جھگڑوں کے خدشات ہیں۔
\محکمہ خوراک نے صوبائی کابینہ کی حتمی منظوری سے قبل آج یا کل تک فلور ملوں کو فی سو کلوگرام گندم کی بوری 5 ہزار 825 روپے کے رعایتی نرخوں پر جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔علاوہ ازیں سرکاری گندم کے اجرا کے سیزن کا آغاز ہونے کے ساتھ محکمہ خوراک کے 18 سے 20 افسران کی تقرری و تبادلوں کی بھی تیاری کی گئی ہے۔ جو ڈپٹی ڈائریکٹرز اور پی ایف سیز محکمہ خوراک کی کمیشن مافیا کے سرغنہ گریڈ 15 کے ملازم سے طے کردہ پیکج پر پورے اتریں گے، انہیں ہی نوازا جائے گا۔
اس ضمن میں باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ روز آل پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن کے رہنمائوں اور محکمہ خوراک کے سیکریٹری و دیگر اعلیٰ افسران کے درمیان ہونے والی میٹنگ میں محکمہ خوراک کے افسران نے فلور ملز مالکان کو آگاہ کیا کہ انہیں آج یا کل تک سرکاری گندم کا اجرا شروع کیا جائے گا۔ فلور ملوں اور آٹا چکیوں کو فی سوکلو گرام گندم کی بوری 5 ہزار 825 روپے میں فراہم کی جائے گی۔
اجلاس میں طے کیا گیا کہ محکمہ خوراک فلور ملوں کو جو گندم جاری کرے گی۔ اس سے تیار ہونے والا آٹا کو پنجاب کے مقابلے میں فی سو کلوگرام 75 روپے زیادہ نرخوں کے حساب سے سپلائی کریں گے کیونکہ پنجاب کے مقابلے میں سندھ میں فی بوری سرکاری گندم کی قیمت 75 روپے زیادہ طے کی گئی ہے۔ بعد ازاں گزشتہ رات محکمہ خوراک کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق فلورملزمالکان فی کلو گرام )(سیاسی، سرکاری، سفارشی و غیر معیاری ) آٹا فی کلوگرام 64 کے حساب سے سپلائی کریں گے اور عوام کو وہ آٹا فی کلوگرام 65 روپے کے حساب سے فی 10 کلو گرام کا تھیلا 650 روپے میں ملے گا۔ مذکورہ آٹا گلی کوچوں سمیت عام مارکیٹ کی دکانوں پر موجود نہیں ہوگا۔ بلکہ یہ آٹا صرف بچت بازاروں اور فلور ملوں کے باہر لگائے جانے والے اسٹالز سمیت دیگر مخصوص مقامات پر لگائے جانے والے خصوصی اسٹالز پر دستیاب ہوگا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ محکمہ خوراک کی کمیشن مافیا اور چور فلور ملز مالکان کی یہی کوشش تھی کہ آٹے کے سرکاری گندم اور اوپن مارکیٹ میں گندم کے نرخوں کو ملاکر آٹے کے ایک ہی نرخ اس حساب سے مقرر کرنے کے بجائے سرکاری اور اوپن مارکیٹ سے خریدی گئی جانے والی گندم سے تیار ہونے والے آٹے کے الگ الگ نرخ مقرر ہوں تاکہ محکمہ خوراک کی کمیشن مافیا کو فی بوری کے حساب سے کمیشن بٹورنے کے ساتھ فلور ملز مالکان کو بھی خوب منافع خوری کا موقع ملے۔ کیونکہ جب سرکاری آٹے کے نرخ الگ مقرر کیے جاتے ہیں تو فلور ملز مالکان کو جو سرکاری گندم جاری ہوتی ہے ، اس حساب سے بننے والے آٹے کے تھیلوں کے مقابلے میں وہ صرف دس سے پندرہ فیصد آٹا سرکاری نرخوں پر سپلائی کرتے ہیں۔ باقی تقریباً 85 فیصد رعایتی نرخوں والی گندم سے تیار ہونے والا آٹا بھی وہ مہنگے دام پر اوپن مارکیٹ میں گندم کے نرخوں کے حساب سے سپلائی کرتے ہیں۔ اور اس سے خصوصاً سرکاری گندم کا کوٹہ حاصل کرکے اسے آٹا تیار کرنے کے بجائے وہی گندم اوپن مارکیٹ میں بیچ کھانے والی فلور ملوں کے ساتھ جزوی طور پر چلنے والی فلور ملوں کو زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ اس طرح گندم پر دی جانے والی اربوں روپے کی سبسڈی کا فائدہ عوام کے بجائے محکمہ خوراک کی کمیشن مافیا اور فلور ملز مالکان پر مشتمل آٹا مافیا کو پہنچتا ہے۔
ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ اس مرتبہ مہنگائی اور سیلاب کی صورتحال کے باعث عوام میں پہلے ہی شدید غصہ پایا جاتا ہے۔ اس صورتحال میں سستے آٹے کی سپلائی میں گھپلوں اور سرکاری آٹے کی مد میں غیر معیاری آٹا سپلائی کرنے کی صورت میں لوگ مشتعل بھی ہوسکتے ہیں۔ اور اس ضمن میں لوٹ مار اور فسادات کا خدشہ بھی پیدا ہوسکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق 11 ستمبر کو سندھ کابینہ کے اجلاس میں رواں سیزن کے دوران گندم کی قیمت اجرا مقرر کرنے کے لئے کابینہ کی ایک سب کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ مذکورہ کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں فی بوری سرکاری گندم کی قیمت اجرا 5 ہزار 825 روپے مقرر کرنے کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت سندھ نے اس کی سندھ کابینہ سے حتمی منظوری لینے سے قبل ہی سرکاری گندم کا اجرا شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ بعد ازاں اس کی منظوری سندھ کابینہ سے لی جائے گی۔
دریں اثنا ذرائع نے بتایا کہ سرکاری گندم کے اجرا کے ساتھ محکمہ خوراک کی انتظامیہ نے تقریباً تین درجن افسران کی تقرری و تبادلوں کے لیے فہرستیں تیار کرنا شروع کردی ہیں۔ جن میں سکھر، لاڑکانہ، شہید بینظیر آباد اور حیدرآباد ریجن کے ڈپٹی ڈائریکٹرز سمیت متعدد اضلاع کے ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولرز (ڈی ایف سیز) کی تقرری و تبادلے ہوسکتے ہیں۔ جن اضلاع کے ڈی ایف سیز کا تبادلہ ہوسکتا ہے ان میں ضلع قمبر شہداد کوٹ، لاڑکانہ، سکھر، شہید بینظیر آباد، سانگھڑ، نوشہروفیروز،بدین، دادو، مٹیاری، کشمورو دیگر اضلاع شامل ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ ان افسران کی تقرری و تبادلوں کی تجاویز محکمہ خوراک کی کمیشن مافیا کے سرغنہ حسن علی مگسی نے تیار کی ہیں جو گریڈ 15 کے ملازم ہونے کے باوجود سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف گریڈ 16 کے ڈی ایف سی قمبر شہداد کوٹ کے عہدے پر تعینات ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ مگسی خود دو اضلاع نوشہروفیروز اور سانگھڑ میں ایک ساتھ تعیناتی کراسکتا ہے۔ جبکہ باقی اضلاع کے لئے انہوں نے ان افسران کی تعیناتی کی جو فہرست تیار کی ہے اس میں انہوں نے نئے پیکج کے تحت کمیشن کے معاملات طے کرنے والوں کے نام شامل کیے ہیں۔جن انہوں نے سینئر اور کئی ریگیولر ڈی ایف سیز کے بجائے محکمہ خوراک میں مشہور نئے افسران پر مشتمل مامالالو گروپ سے تعلق رکھنے والے افسران کو ترجیح دی ہے۔کیونکہ اس گروپ کے سربراہ بھی وہ خود ہیں۔
ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ اس سلسلے میں ڈی ایف سی لاڑکانہ کے عہدے پر تعینات وشن داس عرف آنٹی شمیم کی دیرینہ خواہش رہی ہے کہ وہ ایک بار پھر ڈی ایف سی سکھر کے عہدے پر تعینات ہوں۔ اس سلسلے میں انہوں نے حسن علی مگسی سمیت دیگر کو رضامند کرنے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ مافیا کے سرغنہ کے چہیتے ڈی ایف سی شکارپور دلشاد سومرو کا تبادلہ ڈی ایف سی ضلع بے نظیر آباد کے عہدے پر ہو جائے۔ افسران کی تقرری و تبادلے صوبائی وزیر خوراک مکیش کمار چاولہ کی منظوری کے بعد ہوں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حسن علی مگسی صوبائی وزیر خوراک کے انتہائی قریب ہیں۔ اور وہ 15 گریڈ کا ملازم اصل میں ڈیفیکٹو وزیر خوراک بنے ہوئے ہیں۔