آڈیو لیکس۔۔ مشتری ہوشیار باش ! سجاد عباسی

 

وزیر اعظم ہاؤس آڈیو لیکس  کے معاملے کی تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی بنا دی گئی ہے، ظاہر ہے یہ بہت بڑا سیکیورٹی لیپس ہے، جس کی تہہ تک ہر حال میں پہنچا جانا چاہیئے کہ اگر اقتدار کے اعلٰی ترین ایوان کے راز اس طرح طشت از بام ہو سکتے ہیں تو نیچے والوں سے کیا توقع کی جائے۔ مگر یہ معاملہ اتنا سادہ  بھی نہیں کہ حکومت اسے سیکورٹی بریچ قرار دے کر اصل مواد یا پیغام کو غیر موثر بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ نا یہ کسی نئے واقعے کی گرد میں گم ہو جانے والا معاملہ ہے جیسا کہ عموما” پاکستان میں ہوتا ہے کہ ایک ایشو دوسرے کو کھا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا ہمہ گیر وار ہے جس کا انڈر کرنٹ دیر تک محسوس کیا جائے گا اور دور تک جائے گا۔
دیکھا جائے تو فی الحال اس وار کا ہدف شہباز حکومت اور اس سے زیادہ مسلم لیگ ن کی قیادت ہے۔اگرچہ ان دونوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرنا آسان ہے نہ قرین انصاف۔ مگر "ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے” کے مصداق کہیں نہ کہیں سوچ اور نکتہ نظر کا فرق موجود ہے جس کا اظہار وقتا” فوقتا” ہوتا رہتا ہے۔ ماضی قریب کی مثال عمران خان کی حکومت کو چلتا کر کے اقتدار سنبھالنے کے معاملے پر بڑے میاں صاحب کا اختلاف ہے جو اب کوئی راز نہیں رہا۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا،اب اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔
جن تین یا چار آڈیو لیکس نے اقتدار کے ایوانوں میں کھلبلی مچائی ہے، ان میں سے اہم ترین وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے قریب ترین بیوروکریٹ کے درمیان ہونے والی مبینہ ٹیلیفونک گفتگو کو قرار دیا جاسکتا ہے جس میں مریم نواز کے داماد اور معروف بزنس مین چوہدری منیر کے فرزند راحیل کی رحیم یار خان میں موجود شوگر ملز کے لیے ہندوستان سے مشینری امپورٹ کرنے کا معاملہ زیر غور آتا ہے۔تفصیل دہرانے کی ضرورت اس لیے نہیں کہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر مسلسل اس کا ریکارڈ بج رہا ہے۔ حکومت اور متعلقہ پارٹی کی طرف سے آنے والی وضاحت اپنی جگہ ،مگر اس معاملے کے دونوں پہلو لیگی قیادت اور شریف فیملی کے لیے نقصان دہ ہیں۔ ایک بھارت سے تجارت جو اگرچہ کسی فرد یا خاندان نہیں بلکہ حکومت کی سطح پر ہوتی ہے، مگر اس کی آڑ میں بھارت سے تعلقات کے حوالے سے شریف فیملی کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والے وہ گرد اڑائیں گے کہ ساری وضاحتیں دھول بن جائیں گی۔اس کا آغاز اگلےچند گھنٹے بعد کرک میں عمران خان کے خطاب سے ہو گیا جبکہ سوشل میڈیا پر حکومت اور نواز لیگ مخالف صارفین کے ہاں جشن کا سماں پایا جاتا ہے۔ لوگ یہ سوال بھی کر رہے ہیں کہ ایک طرف سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد پھوٹنے والی بیماریوں سے پریشان لوگ پیناڈول کے لیے ترس رہے ہیں، تو دوسری جانب حکمران خاندان کو اپنے رشتہ داروں کے کاروبار کو فروغ دینے سے فرصت نہیں۔ کاروبار کو وسعت دینا کوئی جرم نہیں مگر جب معاملہ ہندوستان کا آ جائے تو قوم ویسے ہی جذباتی ہو جاتی ہے اور حقائق ایک طرف رہ جاتے ہیں ۔

معاملے کا دوسرا پہلو حکومتی رسوخ کے ذریعے اقربا پروری سے جڑا ہے۔ اگرچہ مذکورہ کال کے آخر میں دونوں طرف سے اتفاق کیا جاتا ہے کہ معاملے کو آگے نہ بڑھایا جائے مگر ساتھ ہی یہ تجویز بھی سامنے آتی ہے کہ اس ایشو کو حل کرنے کے لئے "ڈار صاحب” کی خدمات حاصل کی جائیں جو اس کام میں مہارت رکھتے ہیں۔ تجویز دینے والا گاڑیوں کے مسئلےکا حوالہ بھی دیتا ہے جسے اس کے بقول دار صاحب نے ترنت حل کردیا تھا۔غالبا” یہ ان بی ایم ڈبلیو گاڑیوں کا ذکر ہے جو مشرف سے پہلے والے دور میں مختصر مدت میں ایس آر او جاری کرکے درآمد کی گئی تھیں۔ مریم اورنگزیب کی اس بات سے اتفاق کر لینے کے باوجود کہ آڈیو اس بات کا ثبوت ہے کہ رشتہ داری کی بنا پر کوئی فیور نہیں دیا گیا، بھارت سے تجارت اور اقربا پروری کا عنصر نواز لیگ کے مخالفین کے ہاتھ آنے والا ایک ٹائم بم ہے جسے بوقت ضرورت استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اور اس سے پہلے بھی کیا جاتا رہا ہے۔
دوسری ویڈیو جس کی ہلاکت خیزی اگرچہ کم ہے مگر اس کا براہ راست تعلق نواز لیگ کی عوامی انتخابی سیاست سے ہے۔ اس میں جہاں مریم نواز اپنے وزیراعظم انکل سے گفتگو میں ایک طرف تیل کی قیمتیں بڑھانے کے عمل کی ستائش کر رہی ہیں، تو ساتھ ہی مفتاح اسماعیل کو آڑے ہاتھوں لیتی ہیں کہ وہ پٹرول مہنگا کرنے جیسے اقدامات کی ذمہ داری نہیں لیتے۔ مریم نواز کا یہ موقف سدید تنقید کی زد میں ہے ، جو عوامی سطح پر یہ کہتی رہی ہیں کہ مہنگائی بڑھانے والےاقدامات پر ان کا اور والد محترم کا دل خون کے آنسو روتا ہے ، بلکہ ایک آدھ موقع پر تو  انہوں نے میاں نواز شریف سے احتیاطا” واک آؤٹ بھی کرا دیا تھا۔
اب یہ بات بھی کوئی راز تو ہے نہیں کہ مفتاح اسماعیل اس قسم کے سخت فیصلے اپنے باس شہباز شریف کی مرضی کے بغیر نہیں کیا کرتے تھے، اور نہ کر سکتے تھے ، مگر کیا کیا جائے کہ کوچہ اقتدار سے بے آبرو ہو کر نکلنا ان کا مقدر ٹھہرا۔ اس آڈیو لیگ کا ایک پہلو جہاں نواز لیگ کی قیادت اور حکومت کے درمیان اختلاف کی نشاندہی کرتا ہے، وہیں سیاسی قیادت کے قول و فعل کا تضاد عام آدمی کیلئے سوہان روح ہے ۔ یہ وہ معاملہ ہے جس کے اثرات آنے والے الیکشن میں نواز لیگ کے لیے پریشانی کا سبب بن سکتے ہیں ۔
جہاں تک پرویزالٰہی سے متعلق مریم نواز کے ریمارکس کا تعلق ہے تو یہ گفتگو پنجاب اسمبلی میں تبدیلی اور جوڑتوڑ کے تناظر میں ہو رہی ہے ۔سیاسی مخالفین کے حوالے سے اس قسم کی "لوز ٹاک” کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ اسی طرح سینئر وزرا کے درمیان تحریک انصاف کے ارکان کے استعفوں پر تبادلہ خیال اور لندن قیادت سے منظوری کی تجویز والی آڈیو لیگ بھی اثر پذیری کے لحاظ سے زیادہ اہم نہیں۔ مگر مجموعی طور پر یہ آڈیو لیکس والے دنوں میں خوفناک نتائج  سامنے لا سکتی ہیں ۔ خاص طور پر اس لئے کہ سوشل میڈیا پر جو غیر مصدقہ اطلاعات زیرگردش ہیں، ان کے مطابق وزیراعظم ہاؤس کی 8 جی بی ڈیٹا پر مشتمل سو فائلز آڈیو ریکارڈنگ کی صورت میں ڈارک ویب پر موجود ہیں۔ جو کچھ اب تک سامنے آیا ہے وہ صرف دیگ کے چند دانے ہیں۔ کون جانے کہ جو لوگ ابتدائی نتائج پر جشن منا رہے ہیں، آنے والے دنوں میں نئے انکشافات ان کے لیے کیا پیغام لائیں ۔ یہی صورتحال کا خوفناک پہلو ہے جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ
چراغ سب کے بجھیں گے ، ہوا کسی کی نہیں