ورلڈ بینک نے الیکشن کے بعد کی صورت حال پر خدشات ظاہر کر دیئے

ورلڈ بینک نے الیکشن کے بعد کی صورت حال پر خدشات کا اظہار کردیا ہے، ورلڈ بینک کو خدشہ ہے کہ آنے والے انتخابات کے بعد، مضبوط اور منظم ذاتی مفادات کی وجہ سے اہم پالیسیاں واپس لیے جانے اور قرض دہندگان کو کیے گئے وعدوں پر پورا نہ اترنے پر پاکستان کے لیے بڑے میکرو اکنامک خطرات پیدا ہونے والے ہیں۔

ان ممکنہ تبدیلیوں میں گیس اور بجلی کی سبسڈی کو معقول بنانا، تجارتی نرخوں میں کمی اور پراپرٹی ٹیکس کی بہتر وصولی شامل ہے۔

ورلڈ بینک نے حال ہی میں منظور شدہ 350 ملین ڈالرز کے جائزے میں کہا کہ ’مضبوط اور منظم مفادات کی وجہ سے اسٹیک ہولڈرز کے خطرات زیادہ ہیں، جو ممکنہ طور پر اہم اصلاحات، خاص طور پر تجارتی ٹیرف کی اصلاحات، پراپرٹی ٹیکسیشن اور توانائی کے شعبے میں اصلاحات کو ریورس کرنے کی وکالت کرتے ہیں۔‘

بینک نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کے ساتھ مل کر ایک اور درمیانی مدت کے قرضے کے پروگرام کے تحت مزید مدد فراہم کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے، جس پر نو منتخب حکومت کے ذریعے دستخط کیے جائیں گے۔

ورلڈ بینک نے کہا کہ، ’آئندہ انتخابات کی وجہ سے سیاسی اور گورننس کے خطرات زیادہ ہیں، کیونکہ اس سے منسلک سیاسی دباؤ مالیاتی روک تھام یا چیلنجنگ اصلاحات کے مسلسل نفاذ کے عزم کو ختم کر سکتا ہے‘۔

ورلڈ بینک نے مزید کہا کہ ملک کیلئے ’میکرو اکنامک خطرات بھی زیادہ ہیں، اسٹینڈ بائے ایگریمنٹ کے اختتام پر درآمدات کا ریزرو کور ڈیڑھ ماہ سے بھی کم ہونے کا امکان ہے، اس طرح اسٹینڈ بائے معاہدے کی تکمیل کے بعد اضافی بیرونی مدد کی ضرورت ہوگی‘۔

ورلڈ بینک نے ان ”وسیع تر اور گہری اصلاحات“ پر کچھ روشنی ڈالی ہے جو کہ ملک کو اگلے دو سالوں میں شروع کرنے ہوں گے۔

آئی ایم ایف اور دیگر علاقائی کثیر جہتی اداروں جیسے کہ منیلا میں قائم ایشیائی ترقیاتی بینک (ADB)، بیجنگ میں قائم ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک (AIIB)، اور پاکستان کے دو طرفہ شراکت دار، بشمول چین اور امریکہ کے ساتھ ملک کر کام کرنے والے عالمی بینک نے کہا کہ اس دوران ضروری مالیاتی استحکام، اعتماد کو بہتر بنانے اور سرمایہ کاری میں اضافے کے لیے وسیع تر اور گہری اصلاحات کی ضرورت ہو گی۔

مطلوبہ اصلاحات کی طویل فہرست میں تحفظ پسند تجارتی پالیسیوں میں کمی، مسخ شدہ زرعی سبسڈیز کا خاتمہ، اور صوبوں کو منتقل ہونے والے مضامین پر وفاقی حکومت کے اخراجات کو معقول بنانا شامل ہے۔ جو کہ آج کل وفاق اور صوبوں کے درمیان بات چیت کا مرکز بنا ہوا ہے، جس میں وفاقی فنڈز کو ترقیاتی منصوبوں اور صوبائی نوعیت کی اسکیموں تک محدود کرنا شامل ہے۔

اصلاحاتی مینیو میں اثاثہ جات، جائیداد اور شعبوں پر روایتی طور پر ٹیکسوں میں اضافے کے ذریعے محصولات کو بڑھانا، خاص طور پر زراعت، چھوٹے خوردہ اور رئیل اسٹیٹ پر ٹیکس کا نفاذ شامل ہے۔

اس کے علاوہ ایجنڈے میں بجلی اور گیس دونوں میں توانائی کی اصلاحات کو تیز کرنے پر زور دیا گیا ہے، خاص طور پر تقسیم اور ترسیل سے ہونے والے اخراجات اور نقصانات کو کم کرنا بھی ایجنڈے میں شامل ہے۔

عالمی بینک کے مطابق کاروباری ماحول کو آسان بنانے کے لیے اقدامات کے ساتھ ساتھ ریاستی ملکیتی انٹرپرائز (SOEs) کے نقصانات کو کم کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کرنے ہوں گے۔

عالمی بینک نے نوٹ کیا کہ اگرچہ موجودہ سیاسی تناظر میں اس اصلاحاتی ایجنڈے پر پیش رفت کی ضمانت نہیں دی جا سکتی، تاہم، عالمی بینک اہم شعبوں میں مسلسل اصلاحات کی حمایت کرے گا