فائل فوٹو
فائل فوٹو

بنگلہ دیش کی بھارت نواز حسینہ واجد کو سزائے موت کا حکم

ڈھاکا:  بنگلہ دیش کی عدالت نے انسانیت کے خلاف جرائم کے کیس میں سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو جرائم کا مرتکب قرار دیتے ہوئے سزائے موت سنا دی، شیخ حسینہ کے ساتھی سابق وزیر داخلہ اسد الزمان کو بھی سزائے موت سنائی گئی۔

جسٹس غلام مرتضیٰ موجمدار کی سربراہی میں انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کے 3 رکنی بنچ نے فیصلہ سنایا، ٹریبونل کے دیگر 2 ارکان میں جسٹس شفیع العالم محمود اور جج محیط الحق انعام چوہدری شامل ہیں۔

ٹربیونل نے کئی ماہ کی سماعت کے بعد اپنے فیصلے میں معزول وزیراعظم شیخ حسینہ کو انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب اور پچھلے برس طلبہ کے احتجاج پر مہلک کریک ڈاؤن کا حکم جاری کرنے کا ذمہ دار بھی قرار دیا گیا ہے۔سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے خلاف دائر مقدمات کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں انسانیت کے خلاف جرائم کا مجرم قرار دیا۔

ٹربیونل کی جانب سے شیخ حسینہ واجد کے خلاف مقدمات کا 453 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے شیخ حسینہ واجد کو سزائے موت کا حکم سنایا، شیخ حسینہ واجد کو ان کی غیر موجودگی میں سزا سنائی گئی ہے۔

عدالت نے فیصلہ دیا کہ شیخ حسینہ نے مظاہرین پر مہلک ہتھیاروں کے استعمال کی اجازت دی، حسینہ واجد نے بطور وزیراعظم مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کیا، حسینہ واجد کے حکم پر مظاہرین کے خلاف مہلک ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا، شیخ حسینہ نے طلبہ سے بات چیت کے بجائے طاقت کا استعمال کیا۔

عدالت نے کہاکہ حسینہ واجد اور سابق وزیر داخلہ اسد الزماں خان کمال ابھی تک مفرور ہیں،پیشی کیلئے بھیجے گئے متعدد نوٹسز کے باوجود دونوں ملزمان کا مفرور ہونا ان کے جرم کا  اعتراف ہے،پیش کئے گئے تمام شواہد انسانیت کے خلاف جرائم کی نشاندہی کرتے ہیں،عدالت نے کہاکہ مقدمے میں نامزد ملزم سابق پولیس چیف چوہدری عبداللہ المامون کو معمولی سزا سنائی جائے گی، المامون واحد ملزم ہے جو عدالت میں موجود تھے، جولائی میں سماعت کے دوران اعتراف جرم کیاتھا۔

عدالت نے کہاکہ شیخ حسینہ نے ڈرون، ہیلی کاپٹر اور مہلک ہتھیاراستعمال کرنے کے حکم سے انسانیت کیخلاف جرائم کا ارتکاب کیا۔

شیخ حسینہ واجد کی ایک آڈیو بھی سامنے آئی تھی جس میں شیخ حسینہ کو متعلقہ حکام کو مہلک ہتھیاروں کے استعمال اور مظاہرین کو مارنے کا حکم دیتے ہوئے سنا گیا، اس آڈیو کی باقاعدہ تصدیق بھی کرائی گئی تھی۔

پراسیکیوٹر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ حسینہ واجد نے مظاہرین کے قتل کے لیے ہیلی کاپٹرز اور ڈرونز کے استعمال کی اجازت دی، حسینہ واجد نے اشتعال انگیز تقاریر کے ذریعے مظاہرین کے خلاف لوگوں کو اکسایا۔

سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد پر انسانیت کے خلاف جرائم کا مقدمہ درج ہے، جس میں استغاثہ نے شیخ حسینہ کے لئے سزائے موت کی درخواست کی تھی، سماعت کے دوران عدالت مظاہروں کے دوران مارے جانے والوں کے لوحقین، وکلا اور بنگلہ دیش کے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے کھچاکھچ بھری ہوئی تھی، لواحقین نے عدالتی فیصلہ پر تالیاں بجا کر خوشی کا اظہار کیا۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ پچھلے برس 15 جولائی سے پانچ اگست کے درمیان حکومت کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں 1400افراد ہلاک اور ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہوئے اور ان میں سے زیادہ تر سکیورٹی فورسز کی فائرنگ کا نشانہ بنے۔

اس کے بعد حسینہ واجد اگست 2024 میں بنگلہ دیش سے فرار ہو کر انڈیا چلی گئی تھیں اور اب دہلی میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہیں۔

نوبیل انعام یافتہ محمد یونس میں کام کرنے والے عبوری حکومت کے ایک ترجمان نے مقدمے کے سیاسی محرکات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت نے شفاف طور پر کام کیا اور مبصرین کو اس کی دستاویز شائع کرنے کی اجازت بھی دی گئی۔

ترجمان کا کہنا ہے کہ عوامی لیگ پر سے پابندی ہٹائے جانے کا کوئی منصوبہ زیرغور نہیں ہے، عبوری حکومت کسی بھی قسم کی اشتعال انگیزی، خصوصاً جلاوطن قیادت کی جانب سے کیے گئے اقدام کو انتہائی غیرذمہ دارانہ اور قابل مذمت سمجھتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ فی الوقت عوامی لیگ کے لیے بات چیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے کیونکہ وہ اپنے دور میں کیے گئے انسانیت کے خلاف کیے گئے جرائم پر پشیمانی اور احتسابی عمل سے انکار کر رہی ہے جن میں انٹرنیشنل کرائمز ٹریبیونل کے تحت مقدمہ بھی شامل ہے۔

سخت سکیورٹی انتظامات

خصوصی ٹربیونل کے فیصلے سے قبل ہی مظاہرین کی ایک بڑی تعداد دھان منڈی 32 کے نزدیک جمع ہو گئے تھے جو معزول وزیر اعظم کے والد شیخ مجیب کا گھر ہے، یہ جگہ حالیہ مہینوں میں احتجاج کا ایک مرکز رہا ہے۔

پولیس کو ہجوم کو پیچھے ہٹانے کے لیے سٹن گرینیڈ استعمال کرنے پڑے، مظاہرین دو بلڈوزر بھی کر آئے تھے اور نعرے لگا رہے تھے ’فسطائیت کے اڈوں کو تباہ کرو۔‘

اس فیصلے کے موقع پر گزشتہ سال حکومت مخالف مظاہروں کے دوران مارے جانے والے افراد کے لواحقین بھی عدالت میں موجود ہیں، فیصلے کے بعد کسی بھی ممکنہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے ڈھاکہ میں سکیورٹی کے سخت اقدامات کیے گئے ہیں، شہر کے مختلف علاقوں میں پولیس کے علاوہ ریپڈ ایکشن بٹالین اور بنگلہ دیش بارڈر گارڈ کے اہلکار بھی تعینات ہیں۔

واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں کے مطابق گزشتہ سال موسم گرما میں مظاہروں کے دوران 1400افراد ہلاک ہوئے تھے، سابق وزیرِاعظم پر الزام ہے کہ وہ سینکڑوں مظاہرین کی ہلاکتوں کی ماسٹر مائنڈ ہیں، شیخ حسینہ واجد اور ان کی جماعت عوامی لیگ ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

عدالت جو مرضی فیصلہ کرے مجھے پرواہ نہیں: حسینہ واجد

دوسری طرف بھارت میں پناہ لینے والی بنگلہ دیش کی معزول وزیراعظم حسینہ واجد نے کہا ہے کہ عدالت جو مرضی فیصلہ کرے مجھے پرواہ نہیں ہے، مجھ پر لگائے گئے تمام الزامات جھوٹے ہیں، اللہ نے زندگی دی ہے اور وہی لے گا، میں بنگلہ دیشی عوام کے لیے کام جاری رکھوں گی۔

بھارت سے جاری بیان میں حسینہ واجد کا کہنا تھا کہ ہم یہ سب بھولیں گے نہیں، حساب لیں گے، والدین اور بہن بھائیوں کو کھو چکی ہوں، میرا گھر بھی جلا دیا گیا، پارٹی کارکن پریشان نہ ہوں، یہ وقت کی بات ہے، میں جانتی ہوں آپ تکلیف میں ہیں مگر ہم سب کچھ یاد رکھیں گے اور حساب ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔