کوالالمپور کی کہانی (آخری حصہ)

0

کوالالمپور کی ترقی میں یپ آح لوا (Yap Ahloy) نامی چینی کا بڑا عمل دخل رہا ہے۔ انہوں نے 1870ء میں کوالالمپور اور قلعی (Tin) کی فروخت کو خوب ترقی دلوائی۔ یہاں تک کہ 1880ء میں سیلنغور ریاست کے دارالحکومت کو کلانگ سے کوالالمپور منتقل کیا۔ پھر 1881ء کے سیلاب اور آتشزدگی نے یہاں بڑی تبای پھلائی، لیکن فرینک سویٹنہام نے اس شہر کو دوبارہ ڈیولپ ہونے دیا۔ یہ سیلنغور کے وہ انگریز ریزیڈنٹ ہیں، جس کا نام کلانگ بندرگاہ پر رکھا گیا۔ انگریزوں کی جانب سے ملائیشیا کو 1957ء میں خود مختاری ملی۔ اس کے بعد بھی کوالالمپور کی یہ بندرگاہ پورٹ سوٹینہام کہلاتی رہی۔ ہمارے یہاں آنے کے ابتدائی برسوں میں ہمارے جہازوں کے نقشوں پر بھی یہی نام لکھا ہوتا تھا۔ اس کے بعد اس بندرگاہ کو دوبارہ پرانا نام پورٹ کلانگ دیا گیا۔
مسٹر فرینک اتھیلیسٹان سویٹنہام ملایا پہلے انگریز ریزیڈنٹ جنرل مقرر ہوئے۔ وہ 1871ء سے 1901ء تک سنگاپور اور ملایا میں رہے، وہ ملئی زبان کے ماہر تھے۔ انہوں نے ملئی اور انگریزی ڈکشنری بھی تیار کی، اس کے علاوہ ان کی دوکتابیں بھی شائع ہوئیں:
Malay Sketches.Unaddressed Letters ان کے دور میں ملایا میں کافی اور تمباکو کی کاشت کے لیے زمینوں کو تیار کیا گیا۔ ان ہی کے ایام میںکوالالمپور سے پورٹ کلانگ تک ریلوے لائن بچھائی گئی۔ یاد رہے کہ کوالالمپور بندرگاہ نہیں ہے، یہاں سے تقریباً 38 کلومیٹر مغرب میں پورٹ کلانگ ہے۔ یہ بندرگاہ ملاکا آ بنائے میں ہے۔ یہ آبی گزرگاہ ملائیشیا اور سماترا جزیرے (انڈونیشیا) کے درمیان میں ہے۔ کوالالمپور کے قومی عجائب گھر میں مسٹر سوٹینہام کا مجسمہ موجود ہے۔
بہر حال 1890ء تک کوالالمپور ایسی بہتر صورت اختیار کرچکا تھا کہ شہر کی صفائی ستھرائی کے لیے سینٹری بورڈ قائم کیا گیا۔ اسے سیلنغور ریاست کا دارالحکومت پہلے ہی قرار دیا جاچکا تھا۔ 1896ء میں کوالالمپور کو ان فیڈیریٹیڈ ریاستوں کا بھی دارالحکومت بنایا گیا جو تازہ وجود میں آئی تھیں۔
کوالالمپور میں مختلف قومیں رہنے لگیں، دریائے کلانگ کی مشرقی سمت میں واقع مارکیٹ اسکوائر چائنا ٹاؤن چینیوں کا مسکن بن گیا۔ ملئی اور انڈین مسلمانوں کی اکثریت جاوا اسٹریٹ میں آباد ہوگئی، جسے اب جالاں تن پیراک کہا جاتا ہے اور پڈانگ، جسے اب مردیکا اسکوائر کہا جاتا ہے، انگریزوں کے سرکاری دفاتر کا مرکز تھا۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران 11 جنوری 1942ء کو جاپانی فوج نے کوالالمپور پر قبضہ کرلیا۔ تقریباً ساڑھے تین برس تک ملایا، جاپانی انتظامیہ کے زیر اثر رہا۔ میری ملاقات ایسے کئی ملئی مسلمانوں سے رہی ہے، جنہوں نے اس عرصے کے دوران جاپانیوں کے قائم شدہ اسکولوں سے تعلیم حاصل کی تھی۔ ملاکا میں ایک ایسے بوڑھے جاپانی سے بھی ملاقات ہوئی جو وہیں مسلمان ہوا اور جاپان کے شکست تسلیم کرنے کے بعد واپس جاپان جانے کے بجائے مرنے تک ملاکا ہی میں رہا۔
ناگا ساکی اور ہیرو شیما پر ایٹم بم گرنے کے بعد سنگاپور اور ملایا میں مقیم جاپانی فوج کے جنرل سائشیرو اتاگا کی نے 15 اگست 1945ء کو انگریز انتظامیہ کے سامنے ہتھیار پھینک دئیے۔ یہاں یہ بھی تحریر کرتا چلوں کہ اس جنگ کے اختتام کے بعد امریکا نے جاپانی فوجیوں پر ان کے مظالم کے خلاف کیس چلائے، جس میں مذکورہ جنرل اتاگاکی سخت ظالم قسم کا قاتل ثابت ہوا۔ اسے ٹوکیو کی مشہور جیل سوگامو میں 23 دسمبر 1948ء کو پھانسی دی گئی۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ جاپانیوں نے ٹوکیو میں یہ جیل اس لیے بنوائی تھی تاکہ یہاں یورپین اور انگریزوں کو سزائیں دی جاسکیں۔ اس جیل کی تعمیر جنگ کے دوران ہوئی تھی، لیکن یہاں خود جاپانیوں ہی کو سزائیں جھیلنی پڑیں۔
اس جنگ کے دوران جاپانیوں کے سنگاپور اور ملایا پر قبضے کی حقیقت یہ ہے کہ جاپانیوں نے ملئی مسلمانوں پر اتنے مظالم ڈھائے تھے، جتنے انگریزوں اور چینیوں پر کیے تھے۔ کیوں کہ جزیرے میں جاپانیوں نے پانچ ہزار سے پچیس ہزار چینی تشدد سے ہلاک کیے تھے۔ انہوں نے یہی حال انگریزوں کا بھی کیا۔ جاپانیوں کی قید سے شاذ ہی کوئی انگریز POW (Prisoner of War) بچ نکلتا تھا۔ زندگی پانے والے انگریز فوجی قیدیوں میں سے ایک ہمارے کیڈٹ کالج پٹارو کے پرنسپل کرنل کومبس بھی تھے۔
1941ء میں کرنل کومبس کو ’’137 فلیڈ رجمنٹ‘‘ کی پلاٹوں کا کمانڈر مقرر کیا گیا۔ انہیں اپنی پلاٹوں سمیت ملایا میں موجود گیارہویں انڈیں ڈویژن کے ساتھ شامل ہونے کی ہدایت دی گئی۔ جاپانیوں کے ساتھ جنگ کے دوران ان کی اولین رجمنٹ تھی۔ کرنل کومبس کی پلاٹوں کی پوزیشن سنگاپور کے سمندر کنارے (بیچ) پر تھی۔ 15 فروری 1942ء کوجاپانیوں نے سنگاپور پر قبضہ کرلیا۔ ہمارے پرنسپل، کرنل جی ایچ ایچ کومبس، اگست 1945ء تک تین سال پانچ مہینے جاپانیوں کی قید میں رہے۔ ابتدائی سال انہیں سنگاپور کی چانگی جیل میں رکھا گیا، اس کے بعد انہیں تھائی لینڈ کے Nangpladuk کیمپ میں جنگی قیدی کی حیثیت سے رکھا گیا۔
قید کے عرصے کے دوران ہمارے پرنسپل نے اپنی کتاب Banpong Express میں اپنی یادداشتیں قلم بند کی ہیں، جس میں انہوں نے جاپانی قید میں جنگی قیدیوں کی زندگی کی عکاسی کی ہے کہ وہ کس طرح ہر وقت موت کے سائے میں زندگی گزارتے تھے۔ وہ اپنی قید و بند کی تکالیف بھری داستان کاغذ پر لکھ کر قیدیوں کے کچن میں رکھے ہوئے ایک ڈرم میں چھپا دیتے تھے، جاپانی سپاہیوں کو آخر تک اس کی خبر نہیں ہوسکی تھی۔ ان کی رجمنٹ9 ہفتے تک لڑتی رہی، لیکن شکست ان کا مقدر بنی۔ 700 افراد میں سے تین افسر اور 28 سپاہی لڑتے ہوئے مارے گئے اور 184 افراد کو جاپانیوں نے قید کے دوران تشدد کر کے ہلاک کردیا تھا۔
کرنل صاحب پٹارو میں کبھی کبھی ڈنر کے دوران ہمیں اپنی زندگی کی باتیں سناتے تھے تو ان کی آنکھیں نم ہوجاتی تھیں۔
’’جنگ ہارنے کی تلخی اور جنگ قیدی کی صورت میں جھیلنے والی اہانت جیسی ذلت زندگی بھر فراموش نہیں ہوتی‘‘ وہ کہتے اور پھر سرد آہ کھینچ کر مزید گویا ہوتے: ’’بہر حال ہمارا شمار خوش نصیبوں میں ہوتا ہے کہ بچ گئے اور کچھ عرصے کے بعد دوبارہ فتح حاصل کرلی۔ لیکن میں یہی دعا مانگتا ہوں کہ آنے والی نسلیں ہمارے تجربات سے سبق حاصل کریں اور جنگیں کر کے ایک دوسرے کا سکون غارت نہ کریں۔
جنگ کے بعد کرنل کومبس کو انگلینڈ بلوایا گیا اور انہیں 1945ء میں سنگاپور کا چیف ایجوکیشن افسر مقرر کیا گیا۔ ایک دن سنگاپور میں گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے ان سے حادثہ ہوگیا اور ان کی گاڑی ایک راہگیر سے ٹکرا گئی، وہ شخص ہلاک ہوگیا۔ کرنل کومبس نے خود کو بے گناہ ثابت کرنے کے لیے بہت صفائی پیش کی، لیکن کورٹ میں وہ مجرم ثابت ہوگئے اور انہیں چھ ماہ کی سزا ہوگئی۔ انہوں نے وہ سزا سنگاپور کی اسی چانگی جیل میں کاٹی، جہاں وہ پہلے بھی جنگی قیدی کی حیثیت سے رہ چکے تھے۔
کورٹ کی جانب سے سزا ہونے کے سبب کرنل کومبس کا فوجی کیریئر ختم ہوگیا، جبکہ وہ اب میجر جنرل کا عہدہ پانے ہی والے تھے۔ انہوں نے سوچا تھا کہ ترقی ہونے کے بعد وہ ریٹائرمنٹ لے کر اپنے علاقے گرنسی کے گورنر بنیں گے، لیکن افسوس کہ اس حادثے نے ان کے خوابوں کو چکنا چور کردیا۔ وہ 1957ء میں انگلینڈ پہنچے تو انہوں نے اخبار میں کیڈٹ کالج میرپور خاص کے لیے پرنسل کا اشتہار دیکھا (اس وقت پٹارو والی بلڈنگ زیر تعمیر تھی) انہوں نے لندن سے اس ملازمت کے لیے اپلائی کیا۔ اسی وقت ہم نے عبرت اخبار میں کیڈٹ کالج میں داخلہ کا اشتہار دیکھا، ہم نے داخلے کے انتخاب کے لیے فارم بھرا۔ کرنل کومبس اور ہم جیسے طلبہ کو ایک دوسرے سے ملنا تھا اور 1958ء سے 1963ء تک میرپور اور پٹارو میں ہم نے ساتھ وقت گزارا اور ہم ان کی باتوں اور تعلیم سے مستفیض ہوئے۔
بہرحال آج کوالالمپور اور دوسری جنگ عظیم کے حوالے سے لکھنے کے دوران کرنل کومبس یاد آگئے، جن کی ان دنوں میں تنکو عبدالرحمان سے اچھی علیک سلیک تھی۔ اس قدر کہ تنکو عبدالرحمان ملائیشیا کے پہلے وزیر اعظم منتخب ہوئے اور ایک مرتبہ وہ لندن جاتے ہوئے کراچی میں اسٹاف اوور ہونے کے سبب کچھ دیر ٹھہرے تھے، تو کرنل کومبس ہم کچھ طلبہ کو ساتھ لے کر ان سے ملنے گئے تھے۔ کراچی ایئرپورٹ پر تنکو عبدالرحمان سے ہماری ملاقات ہوئی تھی۔ بعد میں سمندری ملازمت کے دوران اور ملاکا میں رہائش کے ایام میں کرنل کومبس کے حوالے سے میری ان سے ملاقاتیں ہوتی رہیں اور یہ ان کی وفات تک جاری رہی تھیں۔ وہ ہمیشہ ہمارے پرنسپل کے لیے محبت اور عزت کا اظہار کرتے تھے۔
جنگ کے سبب پورے ملایا کی معاشی حالت بگڑ گئی تھی، انگریز نہ صرف کوالالمپور کو بہتر بنانا چاہتے تھے، بلکہ اپنے لندن کو بھی اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی خواہش رکھتے تھے۔ ہر طرف بے روزگاری، غذا کے قلت اور مہنگائی عروج پر تھی۔
مقامی لوگوں کی خواہش تھی کہ جاپانیوں کے ساتھ انگریز بھی یہاں سے چلے جائیں۔ اس لیے ملک کے کمیونسٹ پارٹی کی جنگجو ڈویزن MNLA (ملازمین نیشنل لبریشن آرمی) نے انگریزوں کے ساتھ گوریلہ جنگ کا آغاز کردیا۔ یہ جنگ 1948ء سے 1960ء تک جاری رہی، جسے انگریزوں نے ’’ملاین ایمرجنسی‘‘ کا نام دیا تھا۔ 1957ء میں ملایا کو انگریزوں سے خود مختاری ملی۔ 1963ء میں ’’ملایا‘‘ نے بورنیو جزیرے کی دو ریاستوں سباح اور سرواک کو خود سے ملالیا اور اس طرح ایک نیا ملک ’’ملائیشیا‘‘ وجود میں آیا۔ دو سال کے بعد 9 اگست 1965ء کو سنگاپور، ملائیشیا سے الگ ہوکر الگ ملک بن گیا۔
ملائیشیا میں دس فیصد انڈین اور دیگر قوموں کے لوگ رہتے ہیں، باقی نوے فیصد میں نصف ملئی مسلمان اور نصف چین سے آنے والے چینی شامل ہیں۔ ملائیشیا کو خود مختاری ملنے کے بعد یہاں ملئی اور چینیوں کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات شدت اختیار کر گئے۔ اس حد تک کہ 13 مئی 1969ء کو دونوں فریقین نے کوالالمپور میں خوب مارا ماری کی اور اس طرح شہر کی گلیوں میں تقریباً 200 افراد مارے گئے، اس کے بعد قوانین سخت کیے گئے، پھر آج تک ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا۔
1978ء میں کوالالمپور کو پورے ملک کا دارالحکومت قرار دیا گیا اور ’’شاہ عالم‘‘ شہر کو سلینگور ریاست کا دارالحکومت مقرر کیا گیا۔ شاہ عالم، مساجد، باغات اور تعلیمی اداروں کے حوالے سے مشہور ہے۔ اس کے ایک قدیم کالج، جسے بعد میں یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا، میں ہمارے شہر سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عبدالرحمان میمن کو تدریس کا شرف حاصل رہا ہے، وہ پہلے سندھی طالب علم ہیں جنہوں نے الیکٹرونکس میں ڈاکٹریٹ کیا۔
پروفیسر ڈاکٹر عبدالرحمان میمن صاحب بعد میں مہران یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے۔ اس وقت ان کے دو بھتیجے ملائیشیا میں ڈاکٹر ہیں۔ ایک ڈاکٹر شکیل میمن جو دل کے ماہر معالج ہیں اور دوسرے ڈاکٹر عدیل جو آتھوپیڈک سرجن ہیں۔
کوالالمپور گوکہ سلینگور ریاست کے وسط میں ہے، لیکن اسے ’’فیڈرل ٹیرٹیری‘‘ کہا جاتا ہے۔ 2001ء سے سلینگور کے ایک دوسرے شہر ’’پتراجایا‘‘ کو بھی فیڈرل حکومت میں شامل کیا گیا۔ اس شہر کو کوالالمپور سے کچھ فاصلے پر آباد کیا گیا، جہاں فیڈرل حکومت کے انتظامی دفاتر اور عدالتیں قائم کی گئی ہیں۔ کوالالمپور اور پتراجایا کے درمیان الیکٹرک گاڑیاں اور بسیں چلائیں گئیں تاکہ عوام کو سرکاری دفاتر تک پہنچنے میں آسانی ہو۔ ملک کے وزیر اعظم کی رہائش گاہ اور دفاتر بھی پتراجایا میں ہیں۔ تمام وزراء اور بیورو کریٹس ایک جگہ موجود رہتے ہیں، ویسے بھی ملائیشیا کے لوگ ملازمت سے چھٹی نہیں کرتے، ہر شخص ایمانداری سے ڈیوٹی انجام دیتا ہے۔ ملک کا وزیراعظم بھی روزانہ صبح آٹھ بجے اپنے آفس میں پہنچ جاتا ہے۔ کیوں کہ اسے بھی تنخواہ لینے والے ہر سرکاری ملازم کی طرح وقت پر آنے اور چھٹی تک آفس میں رہنے کا ثبوت پیش کرنے کے لیے کارڈ پنچ کرنا ہوتا ہے۔
ملک کا پارلیمنٹ ہاؤس اور ملک کے بادشاہ کا محل کوالالمپور ہی میں ہے۔ کوالالمپور کا انتظام میئر کے حوالے ہے جو لارڈ میئر اور ملئی زبان میں ’’داتک بندر‘‘ کہلاتا ہے۔ ملئی زبان میں شہر کو بندر کہا جاتا ہے، ملک کی پارلیمنٹ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک House of Representatives جسے ملئی زبان میں ’’دیوان رعیت‘‘ کہتے ہیں اور دوسری House of Sentadel جسے ’’دیوان نگارا‘‘ کہتے ہیں۔
سلینگور ریاست کے وسط میں فیڈرل حکومت کے شہر کوالالمپور اور پتراجایا ہیں۔ وہاں سے دریائے کلانگ گزرتا ہے جو 120 کلومیٹر طویل ہے، دریا کا یہ علاقہ ’’کلانگ ویلی‘‘ کہلاتا ہے۔ دریا پورٹ کلانگ (بندرگاہ) کے مقام پر Malacca Strait کے سمندر میں جاگرتا ہے۔ راستے میں کئی ندیاں اس دریا میں شامل ہوجاتی ہیں، مثلاً گومباک ندی، ناتو ندی، دمن سارا ندی، کیروح ندی، پہنچالا ندی اور ایمپنگ ندی وغیرہ۔ ندی کو ملئی زبان میں سنگائی (Sungai) کہتے ہیں، یعنی سنگائی گومباک، سنگائی باتو… وغیرہ۔
جہاں گومباک ندی، دریائے کلانگ سے ملتی ہے، وہیں کوالالمپور ہے۔ Exact کا یہ وہ مقام ہے جہاں مسجد جامع ہے۔ دونوں دریا ایک دوسرے سے ملنے کے بعد ایک صورت میں کلانگ ندی، پتلانگ جایا، شہر کے جنوب سے گزرتی ہے۔ یہ ندی آگے چل کر سلینگور ریاست کے دارالحکومت ’’شاہ عالم‘‘ سے گزرتی ہے۔ سلینگور ریاست شہر اور بندرگاہ ’’کلانگ‘‘ اس ندی کے بالکل آخری سرے پر ہے جہاں وہ سمندر میں گرتی ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More