’’آنکھیں روشن ہوں نہ ہوں صبح نے روشن ہونا ہے‘‘

0

اصفر پرے نو برس کا سرخ و سپید کشمیری بچہ ہے۔ بڑی بڑی براؤن آنکھوں اور سیب کے سے سرخ گالوں والے اصفر کو کرکٹ بہت پسند ہے اور جتنا کرکٹ پسند ہے، اتنی ہی سردیاں بری لگتی ہیں۔ جاڑے کا سرد موسم اسے اسی لئے زہر لگتا ہے کہ وہ سردی میں اپنے دوستوں کے ساتھ کرکٹ نہیں کھیل سکتا۔ میدان میں کئی کئی فٹ برف پڑی ہوتی ہے، اس لئے وہ جاڑے میں اسکول سے آنے کے بعد کھیل کا وقت کشمیریوں کا مخصوص اونی گرم کرتا فیرن پہنے اندر چھوٹی سے کانگری لئے اپنے دوستوں سے باتیں کرنے میں گزار دیتا ہے۔ وقار اس کا سب سے اچھا دوست بھی ہے اور پڑوسی بھی۔ وہ اکثر اپنے گھر سے ابلے ہوئے انڈے لے کر وقار کو بلا لیتا اور سردیوں میں گرمیوں کی پلاننگ کرتا رہتا کہ اس بار گرمیوں میں وہ شاہد آفریدی کی طرح ایسی بیٹنگ کرے گا کہ سب کے چھکے چھڑا دے گا، لیکن یہ کل کی بات ہے، اب اصفر کسی سے کرکٹ کی بات نہیں کرتا۔ اس نے اپنے سرخ ہونٹوں پر چپ رکھ لی ہے۔ اب وہ جیب میں ابلے ہوئے انڈے لے کر وقار کا دروازہ بجانے بھی نہیں جاتا اور نہ ہی وہ اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر شیخیاں مارتا ہے۔ یہ سب کرنے کے لئے اصفر کو گھر سے باہر نکلنا پڑتا ہے اور وہ اب بمشکل ہی ٹٹول ٹٹول کر اپنے کمرے سے باہر نکلتا ہے۔ اس کی زندگی اندھیر ہو چکی ہے۔
دو ماہ پہلے تک اصفر پرے کا گھر میں رکنا محال ہوتا تھا۔ وہ اسکول سے آتے ہی بستہ رکھ کر جیسے تیسے کھانا کھاتا اور بدن پر فیرن ڈال کر باہر نکل پڑتا۔ اس کی ماں پیچھے چیختی رہ جاتی کہ ابھی تو اسکول سے آیا ہے، کچھ دیر آرام کرلے، برف پڑنے والی ہے، لیکن اصفر نے پہلے کب سنی تھی، جو اب سنتا۔ اس عمر میں بچے گھروں میں ٹھہرتے ہی کب ہیں۔ اصفر بھی باہر نکل جاتا اور سب سے پہلے وقار کے گھر کا دروازہ بجا ڈالتا۔ اس کی دستک کے مخصوص انداز پر سب سے پہلے وقار کی باجی کی آواز آتی، جو ہمیشہ ایک ہی بات کہتیں کہ وقار کی جان چھوڑ دو، کیا اسے بھی اپنی طرح نالائق بنانا ہے… مگر اصفر بھلا کہاں باز آنے والا تھا۔ اس روز بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ اصفر روشن چمکدار دن کا بھرپور فائدہ اٹھانے کے لئے وقار کے گھر پہنچا۔ اسے گھر سے لیا اور دونوں گھر کے پیچھے پرانی سڑک پر کھیلنے کے لئے چلے گئے۔ راستے میں محلے کے بڑے بوڑھوں نے انہیں ڈانٹ ڈپٹ کر گھر بھیجنا چاہا، لیکن وہ نہ رکے۔ اس روز علاقے میں ہڑتال کی سی کیفیت تھی۔ دکانیں بازار بند تھے اور محلے کے نوجوان کسی مظاہرے کی تیاری کر رہے تھے۔ انہوں نے پاکستان کے سبز ہلالی پرچم بھی دیکھ لئے تھے۔ کشمیر میں ممکن نہیں کہ کوئی احتجاج یا مظاہرہ ہو اور پاکستان کا پرچم نہ ہو۔ وہ جمع ہونے والے لوگوں کے بیچ میں سے ہوتے ہوئے بڑے سے باغ میں چلے گئے اور ایک جگہ بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ ابھی انہیں تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی کہ انہیں پرانی سڑک پر سے شور کی آواز سنائی دی اور پھر اس شور میں انہیں نعروں کی مخصوص آوازیں بھی سنائی دینے لگیں۔ وہی آزادی کے نعرے، جو کشمیریوں کو شادی بیاہ کے گیتوں سے زیادہ مرغوب ہیں:
ہم لے کر رہیں گے آزادیہے حق ہمارا آزادیتمہیں دینی پڑے گی آزادیہم چھین کر لیں گے آزادیاصفر اور وقار دونوں اٹھ کھڑے ہوئے۔ دونوں دوستوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور مظاہرے کی طرف بھاگنے لگے۔ کشمیر میں ہڑتالیں مظاہرے اب زندگی کا معمول بن چکے ہیں۔ مظاہرے میں عربی رومال سے چہرہ چھپائے پرجوش حریت پسند نوجوان جھوم جھوم کر نعرئہ تکبیر بلند کرتے ہیں اور مجمعہ ایک ساتھ جواب دیتا ہے تو جیسے دھرتی لرز اٹھتی ہے۔ ان بچوں کے لئے بھی یہ بڑا ہی دلچسپ منظر ہوتا ہے۔ یہ بھی اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھ اٹھا کر آزادی آزادی کے نعرے لگاتے تھے۔ مظاہروں میں شرکت پر انہیں گھر والوں سے کئی بار ڈانٹ بھی پڑ چکی تھی۔ انہیں کہا گیا تھا کہ تم ابھی چھوٹے ہو، مظاہروں میں نہ جایا کرو، کچھ بھی ہو سکتا ہے اور اس روز ایسا ہی ہو گیا۔ دونوں دوست پرانی سڑک سے ہوتے ہوئے محلے کے چوک پر پہنچے، جہاں بھارتی سیکورٹی فورسز اور مظاہرین آمنے سامنے تھے۔ پولیس اور بارڈر سیکورٹی فورس والے انہیں واپس جانے اور منتشر ہونے کا کہہ رہے تھے اور یہاں مجمع تھا کہ بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ نعروں کی گھن گرج پہلے سے زیادہ بڑھنے لگی تھی۔ اس میں اصفر اور وقار کی آوازیں بھی شامل ہوگئیں، پھر اچانک دھائیں دھائیں گولیوں کی خوفناک آوازیں آئیں۔ لوگوں کے بیچ میں آنسو گیس کے شیل گرے۔ مظاہرین دائیں بائیں ہوئے اور ساتھ ہی اصفر کو ایسے لگا کہ جیسے کسی نے اس کے چہرے پر تیز مرچیں ڈال دی ہوں۔ اس کے چاروں طرف اندھیرا ہوگیا۔ اصفر کو سمجھ نہیں آیا کہ اندھیرا کیوں ہو گیا ہے۔ وہ تکلیف سے چلاتا ہوا بھاگا اور دوسرے ہی قدم پر ٹھوکر کھا کر گر گیا۔ اس نے امی اور ابو کو پکارتے ہوئے اٹھنے کی کوشش کی اور پھر دو مضبوط ہاتھوں نے اسے جیسے فضا میں اٹھا لیا۔ وہ ہاتھ اسے اٹھا کر بھاگ رہے تھے اور کوئی چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ گولی چل گئی ہے، بچہ زخمی ہو گیا ہے، گاڑی لاؤ جلدی… اصفر کو کچھ ہوش نہ تھا۔ تکلیف کے شدید آثار کے ساتھ وہ انگلیوں سے اپنی آنکھیں مسلتا ہوا ان میں گھسے ہوئے اندھیرے دور کرنا چاہ رہا تھا، لیکن جیسے جیسے وہ آنکھیں ملتا تکلیف بڑھنے لگتی اور پھر اسے کوئی ہوش نہیں رہا۔
اصفر ہوش میں آیا تو اس کا چہرہ پٹیوں میں لپٹا ہوا تھا۔ اس کی آنکھوں پر بھی پٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔ اس نے ماں کو پکارا تو ماں کے نرم مہربان وجود نے تیزی سے اسے سینے سے لگا لیا۔ اس کی ماں اسے چھاتی سے لگائے روئے جا رہی تھی۔ اس نے ماں سے کہا کہ میری آنکھوں پر پٹیاں کیوں بندھی ہیں؟ ماں نے کوئی جواب نہیں دیا اور بس رونے لگی، پھر اسے اپنے باپ کی آواز آئی، جو روہانسی آواز میں اسے پکار رہا تھا۔ اس نے محسوس کیا کہ اس کا باپ اس کے ساتھ بستر پر بیٹھ گیا ہے اور اسے پیار کر رہا ہے۔ اصفر نے ماں باپ کو آزردہ پایا تو تسلی دینے لگا کہ وہ جلد ہی ٹھیک ہو جائے گا، پریشان نہ ہوں۔ اس کی اس بات پر اس کی ماں کچھ اور بلند آواز سے رونے لگی اور اس وقت تک روتی رہی جب تک کسی اجنبی آواز نے اسے نرمی سے چپ نہیں کرا دیا۔ یہ آواز اسپتال کے ڈاکٹر کی تھی۔ ڈاکٹر نے اصفر کا حال احوال پوچھا اور اس کے زخم دیکھنے لگا۔ اصفر نے اس سے کہا کہ آنکھوں پر بندھی پٹیو ں کی وجہ سے وہ تنگ ہو رہا ہے، اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ ڈاکٹر نے اسے تسلی دی اور کاندھا تھپتھپا کر چلا گیا، لیکن اس کی ماں کی سسکیاں نہ رک سکیں۔ اصفر حیران تھا کہ اس کی ماں اتنا کیوں رو رہی ہے؟ اسے زیادہ چوٹیں تو نہیں آئیں۔ اس نے اپنے ہاتھ پاؤں ہلا کر دیکھے، دونوں ہاتھ پاؤں کام کر رہے تھے، البتہ چہرے اور جسم کے اوپری حصے میں جلن کا احساس ہو رہا تھا۔ اسے یوں لگ رہا تھا جیسے اس کے چہرے اور جسم میں کسی نے باریک باریک میخیں ٹھونک دی ہوں۔ اسے سب سے زیادہ الجھن اندھیرے سے ہو رہی تھی۔ اس اندھیرے سے جو اس کی آنکھوں پر قابض تھا۔ وہ نہ ماں کو دیکھ سکتا تھا، نہ باپ کو۔ اس کا دوست وقار ملنے آیا تو وہ اس کو بھی نہ دیکھ سکا تھا۔ اسے کچھ معلوم نہیں پڑ رہا تھا کہ دن ہے یا رات۔ دن ہے تو
کون سا پہر ہے اور کیا وقت ہے۔ اصفر اسپتال میں اسی طرح تاریکی میں وقت گزارنے لگا، یہاں تک کہ ڈاکٹروں نے اس کی آنکھوں پر سے پٹیاں بھی ہٹا دیں، لیکن وہ اس کی آنکھوں پر قابض ان اندھیروں کو دور نہ کر سکے، جو پیلٹ گن کے چھروں نے اس کی آنکھوں تک پہنچائے تھے۔ وہ دونوں آنکھوں سے نابینا ہو چکا تھا۔ مظاہرین کو منشتر کرنے کے لئے بھارتی سیکورٹی فورس کی جانب سے پیلٹ گن چلائی گئی تھی اور اس بار بدقسمتی سے وہ اس خوفناک ہتھیار کا شکار ہوا تھا۔ اس بندوق کے چھروں نے اس کی دونوں آنکھیں پھوڑٖ ڈالی تھیں۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجی پیلٹ گن سے کشمیریوں کا آنے والا کل اندھا کر رہے ہیں۔ مظاہرین کو منتشر کرنے اور انہیں روکنے کے لئے پیلٹ گن کی نال سیدھی کرکے ٹرائیگر دبا دیتے ہیں، پھر اس کی نال سے نکلنے والے چھرے کس کو کہاں کہاں لگ رہے ہیں، آنکھیں پھوڑ رہے ہیں یا جسم میں گھس رہے ہیں، اس سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔ سیلانی کو وقار کی کہانی سری نگر کے ایک صحافی کی زبانی معلوم ہوئی۔ سیلانی نے ان سے انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر مقبوضہ وادی کی صورت حال معلوم کرنے کے لئے رابطہ کیا تھا۔ چند حوالوں کے بعد سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ ہونے پر انہوں نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہاں بھارت نے ٹاڈا اور پوٹا ( TADA,POTA) لگا رکھا ہے۔ ان قوانین کے تحت کسی بھی کشمیری کو ایک سال کے لئے حراست میں لیا جا سکتا ہے۔ کسی عدالت میں اس کی حراست چیلنج نہیں کی جاسکتی۔ ایسے اندھے قوانین کے باوجود بھارتی فورسز ماورائے عدالت قتل میں ملوث ہیں۔ ترقیوں کے لئے معصوم شہریوں کو اٹھا کر جعلی مقابلہ ظاہر کرکے مار دیتی ہیں۔ مظاہروں سے نمٹنے کے لئے بھارتی فورسز کو 2010ء میں 12 گیج کی پیلٹ گنیں دی گئی تھیں۔ یہ خوفناک ہتھیار بڑی ہی بے رحمی سے استعمال ہو رہا ہے۔ سیلانی کو مقبوضہ وادی کے صحافی نے فرانس کی معروف خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے حوالے سے بتایا کہ صرف 2017ء کے آٹھ مہینوں میں اس ہتھیار سے 13 افراد مارے گئے۔6000 زخمی ہوئے اور ان میں سے 800 کو آنکھوں میں زخم آئے۔ اس صحافی کا کہنا تھا کہ بھارتی فورسز جان بوجھ کر مظاہرین کے اوپری بدن کا نشانہ بناتے ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو مظاہرین کو بدن کے اوپری حصے کے بجائے ٹانگوں پر چھرے لگتے، لیکن اسپتالوں میں جا کر زخمیوں کو دیکھا جائے تو بہت کم ہی بدن کے نچلے حصے سے زخمی ہوتے ہیں۔
یہ اطلاعات ہی دل دہلا دینے کے لئے کافی تھیں، لیکن جب سیلانی کو پتہ چلا کہ سینٹرل ریزرو پولیس فورس نے 2016ء میں عدالت میں اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے 32 دنوں میں پیلٹ گن کے13 لاکھ گولیاں فائر کیں، یعنی چالیس ہزار گولیاں یومیہ چلائی گئیں… سچ میں سیلانی لرز کر رہ گیا۔ بھارت اب کشمیریوں کا مستقبل اندھا کر رہا ہے۔ کشمیر کے کل سے آج روشنی چھین رہا ہے۔ کشمیری سبز ہلالی پرچم کے لئے یہ قربانیاں بھی دے رہے ہیں۔ تکمیل پاکستان کے لئے اور صبح آزادی کے لئے اپنی آنکھوں میں تاریکیاں بھر رہے ہیں اور افسوس کہ یہاں پیٹ بھر کر مستیاں کرنے والے کہتے ہیں کشمیر کو بھلا کر دہلی کے گلے لگ جانا چاہئے۔ مسئلے حل ہوتے رہتے ہیں، ہمیں آگے کی طرف دیکھنا چاہئے۔ کاش! آگے کی طرف دیکھنے والے صرف ایک بار متاثرین پیلٹ گن کے ٹرسٹ کی ویب سائٹ دیکھ لیں۔ Jammu Kashmir Pellet Victims Welfare Trust کی ویب سائٹ بھی ان کے ضمیر کو نہ جھنجھوڑے تو پھر انہیں اپنے ضمیر کی تدفین کر کے جس کام میں لگے ہیں، اسے جاری رکھنا چاہئے کہ بے ضمیر انسان اور کر بھی کیا سکتا ہے۔ سیلانی یہ سوچتے ہوئے صبح آزادی کے لئے آنکھوں کی روشنیاں لٹانے والوں کی تصویریں دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔
٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More