انجینئرز اور ٹیکینکل اسٹاف نے تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر کام کرنے سے انکارکردیا۔فائل فوٹو
انجینئرز اور ٹیکینکل اسٹاف نے تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر کام کرنے سے انکارکردیا۔فائل فوٹو

بی آرٹی منصوبہ خیبر پختونخواحکومت کے گلے میں پھنس گیا

خیبر پختونخواحکومت نے بی آرٹی پرایف آئی اےکی تحقیقات روکنے کیلیےسپریم کورٹ سے رجوع کا فیصلہ کرلیا، آئندہ ہفتے سپریم کورٹ میں دائرکیا جائے گا۔

نجی ٹی وی کے مطابق کے پی کے حکومت نے پشاور بی آرٹی منصوبے پرایف آئی اے کی تحقیقات روکنے کیلیے سپریم کورٹ سے رجوع کا فیصلہ کرلیا ،حکومت کا موقف ہے کہ نیب میں منصوبے کی تحقیقات سپریم کورٹ پہلے ہی روک چکی ہے ،کیس دوبارہ نہیں کھولا جا سکتا۔

ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ جانے کے لیے کیس تیارہے،آئندہ ہفتے کیس سپریم کورٹ میں دائر کیا جائے گا۔

گزشتہ روزپشاور ہائیکورٹ نے ایف آئی اے کو45 دن میں بی آرٹی منصوبے کی تحقیقات کرنے کا حکم دیا تھا۔

نجی ٹی وی کے مطابق پشاور ہائی کورٹ نے بی آر ٹی پراجیکٹ پر سوالات اٹھا دیے، چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ جسٹس وقار احمد سیٹھ نے تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے ایف آئی اے کو 45 دن کے اندر بی آر ٹی کی انکوئری کا حکم دیا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے منصوبے کو ویژن کے بغیر فیس سیونگ کے لیے شروع کیا، ناقص منصوبہ بندی کے باعث منصوبے کی لاگت میں 35 فیصد کا اضافہ ہوا اور پشاور کے رہائشوں کے لیے تکلیف کا باعث بنا۔

منصوبے نے 6 ماہ کی مدت میں مکمل ہونا تھا لیکن سیاسی اعلانات کے باعث تاخیر کا شکار ہوا اور لاگت بھی بڑھ  گئی اور فی کلومیٹر لاگت 2 ارب 42 کروڑ، 70 لاکھ روپے ہے جو بہت زیادہ ہے، کیا منصوبے کے لیے اتنا بڑھا قرضہ لینے کی ضرورت تھی؟ بی آر ٹی کے قرضہ سے صوبے کی معاشی خوشحالی بھی ممکن تھی۔

فیصلے میں استفسار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ٹرانس پشاور کے سی ای او درانی کو عہدہ سے کیوں ہٹایا گیا؟ مقبول کالسنز پنجاب میں بلیک لسٹ تھی، اس کے باوجود اسے بی آر ٹی کا ٹھیکہ دیا گیا، منصوبے میں بد انتظامی کے باعث 3 پراجیکٹ ڈائریکٹرزکو ہٹایا گیا، منصوبے کے پی سی ون میں غیر متعلقہ اسٹاف کے لیے بھی پرکشش تنخواہیں رکھی گئیں، اے سی ایس اور وزیراعلی کے پرنسپل سیکریٹری کو بھی ادائیگی کی گئی، کمزورمعیشت رکھنے والا صوبہ اس کا متحمل نہیں تھا۔

عدالت کا کہنا ہے کہ لاہور میں میٹرو بس کی تعداد 65 ہے جب کہ پشاور کے لیے 219 بسیں استعمال کی جانی ہیں، 155 بسیں فیڈر روٹس پر چلیں گی جنہیں نجی ٹرانسپورٹرز چلائیں گے، عوام کے پیسوں پر چلنے والی بسیں نجی ٹرانسپورٹرز کو کیوں دی جارہی ہیں؟ ایسا لگتا ہے منصوبے کے لیے نااہل کنسلٹنٹس کو رکھا گیا۔

عدالت نے مزید پوچھا کہ پرویز خٹک، ڈی جی پی ڈی اے وٹو، اعظم خان اور ڈی جی پی ڈی اے اسرار، شہاب علی شاہ اور وزیر ٹرانسپورٹ شاہ محمد کے درمیان کیا تعلق تھا؟ اپنے حصے لینے کے لیے ان کا کس طرح تعلق بنا؟

واضح رہے کہ بی آرٹی سے متعلق نیب کی تحقیقاتی رپورٹ پرخیبر پختونخوا حکومت پہلے ہی حکم امتناع حاصل کر چکی ہے۔