سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر اس جماعت کا ہونا چاہیے جس کی اکثریت ہو، پی پی چیئرمین
سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر اس جماعت کا ہونا چاہیے جس کی اکثریت ہو، پی پی چیئرمین

حکومت کیخلاف وائٹ پیپر تیار کر رہے ہیں۔بلاول بھٹو

بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ  پاکستان کے ہر الیکشن میں دھاندلی کے الزامات لگتے ہیں لیکن الیکشن 2018میں جیسی دھاندلی ہوئی ، ایسی پاکستان کے کسی الیکشن میں نہیں ہوئی ، مجھے اپنے رزلٹ کیلیے تین دن انتظار کرنا پڑا لیکن کئی لوگوں کودو گھنٹے میں ہی رزلٹ مل گیا ۔انہوں نے کہا کہ میرے تین حلقوں میں مجھے تین دن بعد نتائج ملے ۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں مسلسل تین الیکشن ہونا جمہوریت کی سب سے بڑی کامیابی ہے،چاہے وہ الیکشن کیسے بھی ہوئےہوں ان الیکشن کے بعدآمریت کی جانب جانا بہت مشکل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو الیکشن پر بہت سے اعتراضات ہیں اور ہم اس حوالے سے اپنا وائٹ پیپر بھی پیش کریں گے ، ہم یہ نظام ٹھیک کرنا چاہتے ہیں ، اگر حکومت اس معاملے پر ہمارا ساتھ دینا چاہتی ہے تو ٹھیک ہے لیکن اگرحکومت نے ساتھ نہ دیا تو پھر بہتر نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کا انتخابی دھاندلی سے بھاگنا قبول نہیں کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جس طرح پولیٹیکل انجینئر نگ کی کوشش کی جارہی ہے ، وہ سب کے سامنے ہے ۔

پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹوزرداری نے کہاہے کہ جہاں جاتا ہوں پاکستان کی اچھائی بیان کرتا ہوں ، پاکستان میں تین لگاتار الیکشن پاکستان کی جمہوریت اور پیپلزپارٹی کی بڑی کامیابی ہے

انہوں نے کہا میڈیا پر سنسر شپ کی مذمت کرتا ہوں،پاکستان میں صحافیوں کا تحفظ چاہتے ہیں،6ماہ سے میرے خاندان کا میڈیا ٹرائل چل رہاہے ۔

انہوں نے کہا  ہم نے نظام کی مضبوطی کی لیے قربانیا ں دی ہیں ، چاہے الیکشن کیسے بھی مشکل ہوئے ، تین الیکشن کے بعدآمریت کی طرف جانا مشکل ہوگیاہے ۔

انہوں نے کہاکہ نئے پاکستان میں آزادی اظہاراور آزادی صحافت کی آزادی نہیں ہے ، میڈیا پر اس سنسر شپ کی مذمت کرتا ہوں،پاکستان میں صحافیوں کا تحفظ چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کے دوران بے نامی اکاﺅنٹس پرسومو ٹو نوٹس لیاگیا ، ہم اپنی عدلیہ کومضبوط دیکھنا چاہتے ہیں ، ادارہ اس وقت مضبوط ہوتاہے جب سب کے ساتھ یکساں سلوک ہوتا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ 6ماہ سے میرا اور میرے خاندان کا میڈیا ٹرائل چل رہاہے لیکن مجھے کسی ایک بھی ادارے کی طرف نوٹس نہیں بھیجا گیا کہ میں اپنا موقف پیش کروں ، اس پرمیرااعتراض ہے ، اس لئے میں نے سوچا کہ اعلیٰ عدالت سے رابطہ کروں ، ویسے تو ہمارے ساتھی سمجھتے ہیں کہ بھٹوز کو عدالتوں سے کبھی انصاف نہیں ملا۔
انہوں نے کہا میں سمجھتا ہوں کہ اس بات کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں ہے کہ عدالت نے اپنے حکم میں لکھا ہے کہ ہمارا ٹرائل سندھ کی بجائے راولپنڈی اور اسلام آباد میں ہوگا ، مجھے اس پر اعتراض ہے ۔

انہوں نے کہا کہ واشنگٹن میں امریکی حکام سے ملاقاتیں ہوئیں،بوسٹن میں پاکستانی کمیونٹی سے بھی ملاقاتیں ہوئیں،میونخ سیکیورٹی کانفرنس میں شرکت کی، مجھے ینگ لیڈر کے طورپربلایا گیا گیا تھا۔