لندن میں ڈبل ڈیکر بس کی فوٹو (فوٹو فائل)

لندن کی شناخت ڈبل ڈیکر بس کا آئیڈیا چرایا گیا

لندن میں ڈبل ڈیکر بس سروس کی شروعات کب ہوئی، اور ڈبل ڈیکر بس کا خیال سب سے پہلے کہاں سے پیدا ہوا، جانئے لندن کی ڈبل ڈیکر بسوں کے بارے میں ایک دلچسپ تاریخ۔

لال رنگ کی یہ خوبصورت اور چمکتی ہوئی روٹ ماسٹر نامی ڈبل ڈیکر بس لندن کی سڑکوں پر پہلی مرتبہ سنہ 1956 کے وسط میں نطر آئیں اور جلد ہی بیف ایٹرز اور ٹاور آف لندن کے نام سے شہر کی شناخت بن گئیں۔

روٹ ماسٹر ڈبل ڈیکر بس کا ڈیزائن ڈیزائنر ڈوگلس اسکاٹ کی جانب سے تیار کیا گیا۔ بس کا انٹیریر اس دور کی عام فیملی کار سے زیادہ پرتعیش تھا جبکہ بس میں تمام تر جدید آسائشیں بھی شامل کی گئی تھیں جیسے کہ پاوراسٹیرنگ، مناسب پیڈ کی ہوئی سیٹیں اور تازہ ہوا کے لئے وینٹیلیشن سسٹم بھی۔

تقریبا آدھی صدی تک ڈبل ڈیکر بس نے شہری زندگی کو عدم رسمیت بخشی، کہ جب پلیٹ فارم نہ ہونے کے باعث مسافر اپنی مرضی سے بس میں چڑھتے اور اترتے تھے۔ جبکہ مسافروں کو بس کی اوپری منزل سے شہر کے خوبصورت اور شہر کی وراثتی جگہوں کے نظارے دیکھنے کا موقع بھی فراہم کیا گیا، لیکن روٹ ماسٹر کی سروس اپنے بننے کے تقریبا پچاس سال بعد سنہ 2005 میں ختم کر دی گئی ۔

 

اپنی مقبولیت کی وجہ سے روٹ ماسٹر کو 2011 میں ڈیزائنر تھامس ہیدروک کی جانب سے 2012 اولمپک لندن گیم کے لئے نیا ڈیزائن دیا گیا، یہ لندن کے لئے پچاس سالوں میں پہلا بس ڈیزائن تھا، کیونکہ ہیدروک ایک بار پھر بس میں سفر کرنے کی عظمت اور وقار کو بحال کرنا چاہتے تھے۔ ہیدروک نے ڈوگلس اسکاٹ کی روٹ ماسٹر کو پلیٹ فارم دیا اس کے علاوہ چمکتی ہوئی اور جدید کھڑکیاں اور خوبصورت قالین بھی جوکہ لال اور گولڈن کلر میں ڈیزائن کئے گئے ہیں۔

نئے ڈیزائن کی ڈبل ڈیکر بس کی فوٹو (فوٹو فائل)

جبکہ پرانے ڈیزائن کی ڈبل ڈیکر بس میں مسافر آج بھی اپنے وراثتی جگفہوں کے روٹ  سے سفر کر کے لطف اندوز ہورہے ہیں۔

پرانی روٹ ماسٹر آج بھی سروس مہیا کر رہی ہے

لیکن یہ ڈبل ڈیکر بسیں لندن کی تخلیق نہیں، بلکہ 19ویں صدی میں سب سے پہلے پیرس میں اومنی بس کے نام سے ڈبل ڈیکر بس بنائی گئی تھی۔

آج بھی لندن میں زیادہ تر لوگ بسوں پر منحصر کرتے ہیں، آج بھی لندن میں بسوں میں سفر کرنے والے مسافروں کی تعداد 2 بلین سے زائد ہے، جبکہ لندن کے خوبصورت نظاروں کو دیکھنے کے لئے بس کی اوپری منزل پر بیٹھ کر سفر کرنا ہمیشہ سے سب سے بہترین راستہ ہے۔