افغانستان میں وسیع البنیاد حکومتوں کے تجربات ناکام کیوں؟

استاد فریدون
افغان نوجوانوں نے دو روز قبل ٹویٹر پر یونائیٹڈ افغانستان کا ٹرینڈ چلایا۔اس موقع پر امارت اسلامیہ کے مختلف لسانی حلقوں سے وابستہ رہنماؤں کی تصاویر ٹویٹر پر گردش کرتی رہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کے وارلارڈز اور مافیائی حلقوں کے علاوہ سبھی عوام افغانستان کو متحد اور ایک قوم دیکھنا چاہتے ہیں۔ امارت اسلامیہ کی صورت میں چالیس سال بعد افغان عوام کو ایک مرکزی حکومت اور مرکزی نظام ملا ہے۔ یہاں طاقت کے جزیرے اور شخصیات کی طوائف الملوکی ختم ہوچکی ہے۔ یہاں امیرالمؤمنین کے ایک فرمان پر 15 ، 20 عہدیداروں کو تبدیل کردیا جاتا ہے اور کہیں سے معمولی اختلاف کی آواز نہیں اٹھتی۔ کہیں سے اصرار نہیں ہوتا کہ فلاں عہدیدار کو عہدے سے نہ ہٹایا جائے۔ کوئی صوبہ اور کوئی ضلع مرکز کے جاری کردہ فرمان سے مستثنی، خود سر اور آزاد نہیں ہے۔پورے نظام میں ایک بھی شخصیت ایسی نہیں جس کے متعلق کوئی فیصلہ کرتے ہوئے امیرالمؤمنین ہچکچائے یا اس کے نتائج کو سوچتے ہوئے تذبذب کا شکار ہو۔ نظام کی مضبوطی اورارکان کی اطاعت کا اندازہ لگانے کے لیے یہی ایک مثال کافی ہے۔ ماضی میں ایسی مثالیں بہت ناپید رہی ہیں۔ نام نہاد صدر کی جانب سے ایک صوبے کے گورنر کی تبدیلی کے احکامات پر عمل درآمدکروانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ۔
دنیا اس وقت امارت اسلامیہ سے ایک وسیع البنیاد اور ہمہ شمول( inclusive ) حکومت کا مطالبہ کررہی ہے ۔ جس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ افغانستان بھر میں آباد مختلف نسلوں، لسانی اکائیوں اور صوبوں کو حکومت میں نمائندگی اور حصہ دیا جائے۔ بہ ظاہر یہ مطالبہ دنیا کو بہت معقول اور دنیا میں رائج جمہوریت کے اصولوں کے قریب لگتا ہوگا، لیکن ایسی حکومتیں کبھی افغانستان کے زخموں کا مداوا نہ کرسکیں ۔ افغانستان کی تاریخ میں دو مرتبہ وسیع البنیاد حکومتیں تشکیل پائیں اور دونوں مرتبہ اس کے نتائج طوائف الملوکی اور طاقت کے جزیروں کی صورت میں نکلے ہیں۔ پہلی حکومت روسی انخلا اور کمیونسٹ انتظامیہ کی شکست کے بعد جہادی تنظیموں کی حکومت تھی، جس نے افغانستان کو تقسیم اور شکست وریخت کے خطرے سے دوچار کردیا۔ کابل اور قندہار ایسے دو بڑے شہروں کی مثالیں لیجیے ، جن کے الگ الگ حصوں بلکہ مختلف شاہراہوں پر الگ الگ تنظیموں اور وار لارڈز کی حکمرانی قائم ہوگئی تھی۔ لسانی اعتبار سے ہر خطے پر وہاں کے اپنے حکمران حاکم ہوچکے تھے جو تخت کابل کے باز پرس سے ہرطرح آزاد ہوچکے تھے۔ ارگ (صدارتی محل) کا سکہ اس کی چاردیواری تک محدود تھا۔ شخصیات کے نام پر ذاتی ملیشیا، ذاتی جیلیں اور ذاتی عدالتیں قائم تھیں۔ یہاں تک کہ عبدالرشید دوستم نے اپنے الگ کرنسی نوٹ تک جاری کردیے تھے۔
دوسری وسیع البنیاد حکومت دوہزار ایک میں بون کانفرنس میں بنائی گئی۔اسی بون کانفرنس کے نتیجے میں بننے والی عبوری وسیع البنیاد حکومت نے اگلے بیس برس تک امریکی چھتری تلے بننے والی ڈمی جمہوری حکومتوں کو روڈ میپ طے کرکے دیا ۔ اگلے بیس برس تک سربراہ حکومت جناب حامد کرزئی رہے یا جناب ڈاکٹر اشرف غنی، حکومت کی تشکیل کا فارمولہ تقریبا وہی رہا۔ اس کا نتیجہ بھی وہی طاقت کے جزیرے، مافیا کی مضبوطی، مرکزی حکومت کی رٹ کا فقدان، بے انتہا کرپشن، بے انتہا غربت، انفراسٹرکچر کی بحالی پر عدم توجہ، بنیادی انسانی حقوق کی پامالی وغیرہ۔
سوال یہ ہے کہ ایسی وسیع البنیاد حکومتیں ناکام کیوں ہیں اور موجودہ حالات میں یہ تجربہ ایک بارپھر ناکام کیوں ہوگا؟اس کی وجہ بہت واضح ہے ، افغانستان میں جن لوگوں کو اب تک اپنی لسانی اکائیوں اور نسلوں کا نمائندہ قرار دے کر حکومت کا حصہ بنایا گیا وہ کوئی عوامی اور سماجی لوگ نہیں تھے۔ یہ ان علاقوں کے وارلارڈز، چور اور مافیائی حلقوں کے سرغنہ لوگ تھے جنہیں عوامی اور سماجی مسائل سے کبھی کوئی سروکار نہیں رہا۔ آپ ایک ایک کا نام لیتے جائیں اور اس کے علاقے کے عوام کی حالت پر غور کرتے جائیں ۔کوئی معیاری ہسپتال، کوئی معیاری سکول، کوئی معیاری سڑک، کوئی معیاری پارک یہ اپنے عوام کو نہ دے سکے ، حالانکہ ذاتی طورپر ان کے ایک نہیں کئی شہروں میں کئی کئی شاندار محلات سامنے آئے ہیں۔ ان کے گیسٹ ہاؤسز، فارم ہاؤس، اصطبل، لگژری گاڑیاں یہ سب کسی عرب ملک کے بڑے بزنس مین کے معیار سے کم کی نہیں ہیں۔ ان لوگوں کے لائف سٹائل اور وسائل کو دیکھ کر ہرگز نہیں لگتا یہ افغانستان جیسے غریب ملک کے ’’سیاسی‘‘ رہنما ہیں۔ یہ وارلارڈز افغانستان کےوہ لوگ ہیں جنہوں نے سوویت جارحیت کے دور سے امریکی یلغار تک ڈالر، اسلحہ، گاڑیاں اور جنگی سامان اکھٹا کیا اور اس کی تجارت کی ۔ اسلحہ کے پورے پورے کنٹینر امریکیوں سے لے کر اسی سیل کے ساتھ بلیک مارکیٹ تک پہنچائے گئے۔ انہیں لوگوں نے طالبان کے خلاف مبالغہ آمیز پروپیگنڈوں کے ذریعے عوام کو لسانی و مذہبی تعصبات کے ذریعے امارت اسلامیہ سے دور رکھا۔ انہیں طالبان کے خلاف خوف میں ڈال کر اپنے دام میں گھیرے رکھا۔ انہیں باور کرایا گیا کہ اگر عوام نے ان کے مسلح لشکر کا حصہ بن کر طالبان کے خلاف جنگ نہ لڑی تو ان کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ انہیں لوگوں نے چور وں اور ڈاکوؤں کی سرپرستی کی۔ افغانستان بھر میں گھر گھر اسلحہ پہنچایا۔ آج بھی کابل، ننگرہار، قندہار اور ہلمند میں گھر گھر سے بھاری اسلحہ برآمد ہورہا ہے۔ بکتر بند اور بلٹ پروف گاڑیاں، خود کار جدید اسلحہ اور مہنگے امریکی گنز کے ذخیرے عام لوگوں کے گھروں سے برآمد ہورہے ہیں۔ امارت اسلامیہ اب تک مذکورہ چار صوبوں میں سرچ آپریشن کرچکی ہے ، آگے خوست اور دیگر صوبوں میں بھی یہ سلسلہ پھیلایا جائے گا۔ جن علاقوں کے آپریشن ہوچکے ہیں ان کے متعلق اب بھی یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ اسلحہ سے پاک ہوچکے ہیں۔ جن لوگوں نے افغانستان کے گھر گھر کو اسلحہ کا ڈپو بنادیا، انہیں لوگوں کو عوامی نمائندہ قرار دے کر حکومت میں حصہ دار بنادیا گیا ، جس سے ان کی طاقت میں دن دوگنا رات چوگنا اضافہ ہوتا گیا۔ یہ سب ہوتا رہا مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اسے جمہوریت ، انسانیت اور عوامی نمائندگی کانام دیا گیا۔
امارت اسلامیہ کی آمد سے ان وارڈ لارڈز اور مافیاؤں کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ افغانستان کا ہر شہری قانون کی نظر میں یکساں ہے۔ کوئی اتنا طاقتور نہیں کہ نظام کو آنکھیں دکھاسکے۔ یہاں ایک شکایت پر صوبائی پولیس چیف اور گورنر تک کو سیکیورٹی ادارے قیدی کی حیثیت سے اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ یہاں تلاشی لینے والی فورسز گورنر کے گھر کی تلاشی لے لیتے ہیں اور نظام میں کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔ افغانستان کو جرائم اور مظالم سے پاک کرنے کا یہی واحد علاج ہے کہ یہاں ایک مرکزی اور مستحکم حکومت قائم ہو ۔ افغانستان میں اگر تعلیم، شعور، ترقی اور بہتر معیشت کا خواب دیکھنا ہے تو پہلے یہاں سماج کو ظلم اور جرائم سے پاک کرنا ہوگا۔ یہاں خود سر اور نظام کے باغی لوگوں کو بیچ سے ہٹانا ہوگا۔ یہاں جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی کرنی ہوگی۔ اس طرح کے پرامن اور پرسکون ماحول میں جتنا وقت گذرتا جائے گا یہاں تعلیم، شعور، سماجی احترام اور محبت پیدا ہوگی۔ مختلف لسانی حلقوں کے درمیان جب تعصبات ابھارنے والے عناصر کا خاتمہ ہوگا تو ملک سکون اور خوشحالی کی جانب اپنا فطری سفر طے کرے گا۔
جہاں تک بات ہے نظام میں مختلف طبقات کی نمائندگی تو اس کا حل یہ ہے کہ ناکام اور چلے ہوئے کارتوسوں کی بجائے ہر طبقہ کے ذہین، تعلیم یافتہ، باشعور اور ملکی مسائل سے آگاہ لوگوں کو آگے لایا جائے، جو واقعتا نمائندگی کے حق دار ہیں۔ لوگوں کی نمائندگی جنگجوؤں کے ہاتھوں سےلے کر انہیں کے تعلیم یافتہ لوگوں کو دی جائے۔ امارت اسلامیہ اپنی تشکیل میں اسی بات کی کوشش کررہی ہے کہ نظام میں جس زبان اور علاقے کے ہوں اہل اور صاحب دانش لوگ شریک ہوں۔ یہ تاثر غلط ہے کہ امارت اسلامیہ اپنے صف کے مختلف زبان والے لوگوں کو نظام میں جگہ دے کر یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ ہماری حکومت ہمہ شمول ہے۔ وزیر صنعت و تجارت نورالدین عزیزی، نائب وزیر صحت ڈاکٹر حسن غیاثی، سیکریٹری وزارت اقتصادیات عبداللطیف نظری اور مشیر وزارت پانی وبجلی ڈاکٹر فاروق اعظم ایسے کئی لوگ ہیں جو امارت اسلامیہ کی صف تو کجا ہم فکر بھی نہیں رہے ۔ ایسے لوگوں کو صرف ان کی اہلیت کی بنیاد پر عہدے دیے گئے ہیں۔
آج اگر مستقبل کےمعاشی و شعوری اعتبار سے ترقی پذیر، پرامن ، اور تمام ممالک کی صف میں عزت و وقار کے ساتھ کھڑے افغانستان کی بنیاد رکھنی ہے تو یہاں کے طبقات کی نمائندگی تعلیم یافتہ ، اہل اور دیانت دار لوگوں کو دینی ہوگی۔ افغانستان کو ایک بارپھر ان مافیاؤں اور وارلارڈز کے حوالے کرکے ہم افغانستان کو وہ مستقبل دیں گے جو پچھلے چالیس سال میں افغانستان پر بیت چکا ہے۔