فائل فوٹو
فائل فوٹو

’’غیر ملکی تحائف سیدھا بنی گالا پہنچائے جاتے رہے‘‘

احمد خلیل جازم:   (پہلی قسط)
’’بیرون ممالک میں جو پاکستانی سفیر کام سرانجام دیتے ہیں، ان میں انہیں تین چار قوانین کی پابندی کرنا ہوتی ہے کہ جس میں ایک یہ ہے کہ پاکستان کا کوئی بھی آفس بیرر اگر اس ملک کادورہ کرتاہے تو اسے جو تحائف ملتے ہیں، تو وہ توشہ خانہ کو رپورٹ کرے گا۔ صرف توشہ خانہ ہی نہیں، کوئی بھی اپنے ملک کے حوالے سے ہونے والی ایکٹیوٹی کو وہ گورنمنٹ آف پاکستان کو رپورٹ کرے گا۔ یہ فارن ریلیشن ایکٹ اور سکیورٹی لا بھی پابند کرتے ہیں لیکن سابق وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے سفیر کو منع کردیا گیا کہ آپ نے تحائف کو رپورٹ نہیں کرنا۔ کیونکہ اگر سفیر رپورٹ دے دیتا تو پھر ناقابل تردید ریکارڈ بن جاتا ہے۔ غیر ملکی تحائف سیدھے بنی گالہ پہنچائے جاتے رہے اور توشہ خانہ کو صرف زبانی بتایا جاتا رہا‘‘۔ یہ باتیں توشہ خانہ تحائف بیچنے کی خبر سب سے پہلے بریک کرنے والے رانا ابرار خالد نے اس وقت کہی جب جمعرات کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد کی عدالت نے توشہ خانہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف فوجداری کارروائی کیلئے الیکشن کمیشن کی درخواست قابل سماعت قرار دیتے ہوئے عمران خان کو 9 جنوری کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔

توشہ خانہ ریفرنس الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عدالت کو بھجوایا تھا، جس کا محفوظ فیصلہ سنایا گیا اور عمران خان کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا گیا۔ قبل ازیں عمران خان کہہ چکے ہیں کہ وہ یہ تحائف قانونی طورپر خرید چکے ہیں اور وہ اب ان کے ذاتی تھے جس پر کوئی سوال نہیں اٹھا سکتا۔ اس حوالے سے سب سے پہلے سوال اٹھانے والے صحافی رانا ابرار خالد نے چار روز قبل عمران خان کے نام ایک کھلا خط لکھ کر پوچھا کہ ’’جناب عمران خان صاحب! جس گھڑی کو آپ ذاتی بتاتے پھر رہے ہیں وہ آپ کی ذاتی نہیں تھی۔ کیونکہ ہیروں والی گھڑی سمیت 1.2 کروڑ ڈالر کی لگ بھگ مالیت کا ’گراف‘ کا سیٹ سعودی ولی عہد نے آپ کو نہیں، بلکہ وزیر اعظم پاکستان کو گفٹ کیا تھا۔ نہ صرف آپ نے امانت میں خیانت کی اوراخلاقیات کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے سعودی ولی عہد کا تحفہ سرِ بازار بیچ ڈالا، بلکہ قانون کی خلاف ورزیاں بھی کی۔‘‘

انہی خلاف ورزیوں کے حوالے سے ’’امت‘‘ نے رانا ابرار خالد سے پوچھا کہ آپ نے صرف عمران خان کے دور حکومت میں توشہ خانہ تحائف کا ہی ریکارڈ کیوں طلب کیا، اس سے پہلے بھی تو توشہ خانہ سے تحائف لیے گئے؟ تو اس پر رانا ابرار کا کہنا تھا کہ ’’یہ سوال پہلے بھی مجھ کچھ لوگ پوچھ چکے ہیں۔ بات یہ ہے کہ جہاں خبر ہوتی ہے، صحافی وہی پہنچتا ہے۔ جب میں نے توشہ خانہ کار یکارڈ مانگا تھا تو سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی، سابق وزیر اعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف نیب کورٹ راولپنڈی میں توشہ خانہ کا کیس زیر سماعت تھا۔ اس حوالے سے ایک مقامی اخبار کی سب سے پہلے اسٹوری آچکی تھی۔ جب مذکورہ تینوں شخصیات کی خبر اخبار میں شائع ہوچکی ہے تو اس خبر کی میں دوبارہ انفارمیشن کیوں حاصل کرتا؟ ہم نے وہی بتانا ہوتا ہے جو پہلے منظر عام پر نہیں آیا ہوتا۔ اب لوگ کہتے ہیں کہ مجھے بیلنس کرنا چاہیے۔ صحافی کبھی بیلنس نہیں کرتا، یہ سب سے بڑی غلط فہمی ہے۔ اور یہ پی ٹی آئی کا بہت بڑا پروپیگنڈا ہے صحافت کے خلاف کہ جی بیلنس کریں۔ مجھے اگر کسی بھی سیاسی جماعت کے لیڈر یا کسی گورنمنٹ آفیشل کی دس خبریں ملیں گی تو میں دس اوپر نیچے شائع کراتا رہوں گا۔ یہ نہیں ہوگا کہ ایک چھاپ کر باقی روک دوں۔ اور جو پہلے ہی خبریں دیگر لوگوں کی شائع ہوگئیں، پھر انہیں شائع کرنا شروع کردوں۔ میرے لیے خبر اس لیے اہم تھی کہ مجھے میرے سورس نے ثبوتوں کے ساتھ بتایا کہ نومبر 2020ء میں وزیر اعظم عمران خان نے غیر ملکی تحائف بیچ دیئے۔ اس پر تو میرا ماتھا ٹھنکا کہ وزیراعظم پاکستان نے دوسرے ملک کے سربراہ سے لیا گیا تحفہ بیچ دیا۔ ایسا بھی کسی مہذب معاشرے میں ہوتا ہے؟ کہیں اور کوئی ایسی مثال بھی ہے؟ اگرمجھے تحائف بیچنے کی خبر نہ ملتی تو میرے لیے یہ ایک روٹین کی خبر ہوتی جسے میں شاید پک بھی نہ کرتا۔ کیوں کہ رُول موجود ہے کہ وزیر اعظم تحفہ حاصل کرسکتا ہے، مہنگا یا سستا لیا، لیکن لے تو سکتا ہے۔ اس میں خبر تو ہوتی لیکن بڑی خبر نہ بنتی۔ میں عمران خان کے خلاف اپوزیشن تھوڑی تھا کہ ایسی بات کرتا۔ لیکن خبر یہ تھی کہ دنیا میں واحد واقعہ ہے کہ کسی وزیر اعظم نے کسی دوسرے ملک سے ملا ہوا تحفہ بیچ دیا۔ اور ایک نہیں بیچا، بار بار تحائف بیچے گئے۔ انہیں غیر ملکی دوروں میں جتنے تحائف پیش کیے گئے، وہ چھوٹی سے چھوٹی چیز لے کر بڑی سے بڑی چیز توشہ خانہ سے لی اور زیادہ تر چیزیں بیچ دی گئی ہیں۔

اس حوالے سے دو تین ادارے تفتیش کررہے ہیں۔ میں سو فیصد نہیں کہتا لیکن زیادہ تر چیزیں خرید کر بیچ دی گئی ہیں۔ جس چیز سے پیسے وصول ہوسکتے تھے وہ بیچ دی گئی۔ میں آپ کو بتائوں کہ عون چوہدری جو عمران خان کا قریبی ساتھی تھا، اس نے ایک نیوز چینل پر ان ملازمین کے نام تک بتا دیئے کہ کون سے ملازمین نے سیٹورس مال اور جناح سپر میں تحائف بیچے‘‘۔

ان سے اس کھلے خط بارے سوال کیا جو انہوں نے عمران خان کو لکھا تھا۔ اس میں ایک شق تھی کہ تحائف قواعد کے مطابق جمع نہیں کرائے گئے اور وہ سیدھے بنی گالہ لے جائے گئے۔ اس پر آپ کے پاس کیا کوئی ثبوت ہیں؟ تو اس پر رانا ابرار کا کہنا تھا کہ ’’میں اس پوائنٹ پر آتا ہوں۔ لیکن قانون کے نزدیک میرے خط میں پہلا پوائنٹ سب سے اہم ہے۔ دوسرے ممالک میں جو پاکستانی سفیر ہوتا ہے، اسے تین چار قوانین پابند کرتے ہیں کہ پاکستان کا کوئی بھی آفس بیرر اگر اس ملک کادورہ کرتاہے تو اسے جو تحائف ملتے ہیں، تو وہ توشہ خانہ کو رپورٹ کرے گا۔ صرف توشہ خانہ ہی نہیں کوئی بھی اپنے ملک کے حوالے سے ہونے والی ایکٹیوٹی کو وہ گورنمنٹ آف پاکستان کو رپورٹ کرے گا۔ اسے یہ فارن ریلیشن ایکٹ اور سیکیورٹی لا بھی پابند کرتے ہیں۔ دوسرے ممالک کے سفیر پاکستان میں بیٹھ کر یہی پریکٹس کرتے ہیں۔

ہوا یہ کہ سابق وزیراعظم کی طرف سے سفیر کو منع کردیا گیا کہ آپ نے تحائف کو رپورٹ نہیں کرنا۔ کیونکہ اگر سفیر رپورٹ دے دیتا تو پھر ناقابل تردید ریکارڈ بن جاتا ہے۔ اب تو آر ٹی اوز بھی آچکے ہیں ،چیزیں ثابت ہوچکی ہیں۔ ابھی جو آر ٹی اوز آئی ہے اس کی تو میں بھی تصدیق کرتا ہوں کہ یہ اورجنل ہے، جس کے لیے بشریٰ بیگم کہتی ہیں کہ آپ نے تصویریں کیوں منگوائیں؟ اس کی یہی وجہ تھی کہ ایک طرف سے تو یہ تحائف ری ٹین کرتے تھے، تاکہ ایف بی آر کے کاغذات کا پیٹ بھر سکے۔ اب توشہ خانہ کاا نچارج جو ڈپٹی سیکریٹری تھا محمد احد، وہ بے چارہ کہتا تھا کہ بھئی تحائف نہیں دکھاتے تو کم از کم تصاویر تو بھیجیں، تاکہ میں کاغذوں اور فائلوں کاپیٹ بھرسکوں۔ لیکن وہ تصاویر پھر لیک ہونے لگیں۔ یہ آڈیو 2021ء کے درمیانی عرصے کی ہے کہ بشریٰ بی بی ان تصاویر پر برگشتہ ہوئیں۔ میرا کھلا خط اسی تناظر میں ہے۔ دیکھیں عام طور پر جب پی ایم کسی ملک کا دورہ کرتا ہے تو توشہ خانہ کا ایک حکومتی نمائندہ ساتھ جاتاہے۔ اگر وہ نہ جائے تو پھر پی ایم کے ساتھ فارن آفس کا جو چیف پروٹوکول آفیسر ہوتا ہے، اسی کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ تمام تحائف اپنی ذمہ داری میںلا کر توشہ خانہ میں جمع کرادے۔ مگر یہ سیدھے بنی گالہ لے جائے گئے اور زبانی بتا دیا جاتا تھا کہ فلاں فلاں تحائف ہیں، ان کی کاغذی کارروائی پوری کرلیں۔‘‘ رانا ابرار خالد سے یہ پوچھا گیا کہ جن سفیروں کو منع کیا گیا تھا کیا تفتیش میں ان سے سوالات کیے جائیں گے کہ آپ نے تحائف کا ریکارڈ کس کے کہنے پر نہیں رکھا، تو رانا ابرار نے اس حوالے سے بہت حیران کن باتیں بتائیں۔ (جاری ہے)