مفتی نور ولی نے مطالبات ماننے سے صاف انکار کر دیا،فائل فوٹو
مفتی نور ولی نے مطالبات ماننے سے صاف انکار کر دیا،فائل فوٹو

’’نیشنل ایکشن پلان پرمکمل عملدرآمد کرنا ہوگا‘‘

ندیم محمود :  دوسرا اور آخری حصہ
پاکستان میں ایک بار پھر دہشت گردی سر اٹھارہی ہے۔ پچھلے چند ماہ کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں اٹھائیس فیصد اضافہ ہوا اور اس کے نتیجے میں پاک فوج کے جوانوں کی شہادتیں ہو رہی ہیں۔ اس ساری صورتحال پر ’’امت‘‘ نے معروف دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون راجہ سے خصوصی بات چیت کی۔ جس کا دوسرا اور آخری حصہ سوال و جواب کی شکل میں نذر قارئین ہے۔

س: دہشت گردی کی نئی لہر کو روکنے کے لئے اور مزید ایسے کون سے اقدامات ہیں، جو آپ کے خیال میں بہت ضروری ہیں؟

ج: بیس نکات پر مشتمل فروری دو ہزار پندرہ میں بنائے گئے نیشنل ایکشن پلان کو بحال اور اس پر مکمل طور پر عملدرآمد کرنا سب سے اہم ہے۔ نیکٹا (NACTA) کی بحالی بھی ناگزیر ہے۔ جس کے تحت انٹیلی جنس نیٹ ورک کو بہتر کرنے کے لئے تمام تئیس ایجنسیوں کو ایک چھت کے نیچے رکھا جا سکتا ہے۔ اسی طرح دو ہزار سولہ تک عدلیہ میں اصلاحات کی جانی تھی۔ لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ اچھے نتائج کے حصول کے لئے عدالتی عمل کو فوجی آپریشن کے ساتھ چلنا ہوگا۔ دوسری جانب ٹی ٹی پی جو دو ہزار چودہ میں تین دھڑوں میں بٹ چکی تھی۔ اسے نہ صرف ’’را‘‘ اور اجیت دووال نے دوبارہ یکجا کیا۔ بلکہ داعش اور بی ایل اے سے اس کا ملاپ بھی کرایا۔ اس ملاپ کو ختم کرنے کے لئے ہر طریقہ بروئے کار لایا جانا چاہیے۔

س: صوبہ خیبرپختون خوا کے جن علاقوں میں ٹی ٹی پی کی موجودگی ہے۔ ان علاقوں کو کلیئر کرانے کے لئے کیا ماضی جیسے فل اسکیل آپریشن کی ضرورت ہے؟

ج: چونکہ ابھی ٹی ٹی پی پاکستان کے اندر اپنے پرانے ٹھکانوں پر قدم جمانے کی کوشش کر رہی ہے۔ لہٰذا بظاہر ماضی کے مقابلے میں آپریشن نسبتاً آسان ہوگا۔ اب ہمیں پاک افغان سرحد پر باڑھ کا ایڈوانٹیج حاصل ہے۔ چاہے یہ باڑھ فی الحال زیادہ موثر نہیں۔ لیکن پھر بھی موجود تو ہے۔ باڑھ کے نیچے سرنگیں کھودنے کی کارروائیاں مکمل طور پر روک کر اسے موثر بنایا جا سکتا ہے۔ کیونکہ پاکستان میں داخل ہونے کے لئے ٹی ٹی پی کی جانب سے نہ صرف باڑھ کو کاٹا جاتا ہے۔ بلکہ باڑھ کے نیچے کئی سرنگیں پکڑی گئی ہیں۔ ان سرنگوں کے ذریعے ہتھیار اور اسلحہ منتقل کیے جاسکتے ہیں۔ دہشت گردوں کی سیف انٹری اور سیف ایگزٹ خطرناک ہے۔ اسے فوری روکا جانا چاہیے۔ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے حوالے سے اس بار یہ ایڈوانٹیج بھی ہے کہ پہلے کی طرح وہاں نیٹو اور سی آئی اے نہیں بیٹھی۔ جس نے اسّی کیمپ بنا رکھے تھے۔ تاہم متذکرہ ایڈوانٹیجز کے باوجود کافی چیلنجز پھر بھی موجود ہیں۔ مثلاً سوات اور مالا کنڈ میں کیے جانے والے کامیاب آپریشن کے بعد ان علاقوں کو سول ایڈمنسٹریشن کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ دہشت گردی کی تازہ لہر کے سبب اب سول ایڈمنسٹریشن کو مشکل کا سامنا ہے۔

اسی طرح فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام سے قبل جنوبی اور شمالی وزیرستان کا سسٹم ایف سی آر کے نیچے تھا۔ تب دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف بڑے سخت ایکشن ہوا کرتے تھے۔ دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث افراد کے گھر مسمار کر دیئے جاتے تھے۔ پورے پورے گائوں جوابدہ ہوتے تھے۔ دو ہزار اٹھارہ میں فرنٹیئر کرائم ریگولیشنز (ایف سی آر) کے خاتمے کے بعد اب سابق فاٹا کے علاقے بھی خیبرپختون خوا کی سول انتظامیہ کے زیر انتظام ہیں۔ تاہم صوبائی حکومت دہشت گردی کی موجودہ لہر سے نمٹنے میں یکسر ناکام دکھائی دے رہی ہے۔ دوسری جانب کامیاب آپریشن کے بعد جنوبی اور شمالی وزیرستان میں بھی فوج بیک گرائونڈ میں چلی گئی تھی۔ سیکورٹی انتظامات خاصہ دار، لیویز اور ایف سی نے سنبھال لئے تھے۔ دہشت گردی کی نئی لہر میں ایف سی، خاصہ دار اور پولیس آسان ٹارگٹ ہیں۔ لہٰذا وہاں اب فوج کو دوبارہ فرنٹ پر لانا پڑے گا۔ اس کے لئے فنڈز اور تیاریوں کی ضرورت ہے۔ جب فوجی جوان اپنے کنٹونمنٹس سے وہاں دوبارہ تعینات ہوں گے تو ایف سی ان کی ماتحت ہو جائے گی۔

اس سارے عمل میں مقامی لوگوں کا تعاون بھی خاصی اہمیت رکھتا ہے۔ جو گزشتہ آپریشنوں کے سبب کیمپوں میں تھے۔ اب انہیں بحال کیا گیا ہے۔ فوج نے سابقہ فاٹا میں بہت کام کیا ہے۔ متاثرین کے مکانات تعمیر ہو رہے ہیں۔ کیڈٹ کالجز اور ٹیکنیکل اسکولز بن گئے ہیں۔ مقامی افراد کو روزگار کے مواقع ملے۔ دہشت گردوں سے نمٹنے کے لئے ان مقامی افرادکو بھی ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ جس طرح پہلے دیہات کی بنیاد پر ڈیفنس کمیٹیاں بنائی گئی تھیں۔ ایک بار پھر قبائلی عمائدین کی قیادت میں اسی نوعیت کی لوکل پیس کمیٹیاں قائم کرنے کی ضرورت ہے۔

س: آپ کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے جنگجوئوں کو ہتھیاروں سمیت واپس آنے کی اجازت دینا سنگین غلطی ہے۔ جو جنرل فیض حمید نے انہیں دی۔ کیا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو آن بورڈ لئے بغیر ایک کور کمانڈر اتنا بڑا فیصلہ کر سکتا ہے؟

ج: جنرل باجوہ کو نہیں معلوم تھا کہ ٹی ٹی پی سے اس نوعیت کی کمٹمنٹ کی گئی ہے۔ حکومتی سطح پر بھی یہی کہا گیا تھا کہ ٹی ٹی پی کے لوگوں کو ہتھیاروں سمیت واپسی کی اجازت نہیں ملے گی۔ جبکہ سنگین وارداتوں میں ملوث جنگجوئوں کے علاوہ دیگر کو رہا کرنے کی ہامی بھری گئی تھی۔ حکومت نے فاٹا کا پرانا اسٹیٹس بحال کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ لیکن حکومتی خواہشات کے برعکس جنرل فیض حمید نے اپنے طور پر ٹی ٹی پی سے ایگریمنٹ کرلیا۔ جس کی بنیاد پر جنگجوئوں کو ہتھیاروں سمیت واپسی کا راستہ مل گیا۔ ٹی ٹی پی کے بہت سے لوگوں نے یہ حوالہ بھی دیا کہ ان کے ساتھ جنرل فیض حمید نے ایگریمنٹ کیا تھا۔ یہ معاملہ سامنے آنے کے بعد جنرل فیض حمید کو پشاور سے ہٹاکر بہاولپور کا کور کمانڈر بنا دیا گیا تھا۔ ان کی قبل از وقت ریٹائرمنٹ کا سبب بھی یہی معاملہ بنا۔ ورنہ انہیں چند ماہ بعد ویسے ہی ریٹائر ہوجانا تھا۔