نگراں حکومت نے سخت کارروائیوں کی ہدایت دے دی، فائل فوٹو
نگراں حکومت نے سخت کارروائیوں کی ہدایت دے دی، فائل فوٹو

کے الیکٹرک بڑے بجلی چور پکڑنے کیلے تیار

نواز طاہر/ اقبال اعوان:
مختلف غیرسرکاری ذرائع سے حاصل اعدادوشمار کے مطابق بجلی چوری اور بلوں کی عدم ادائیگی میں خیبرپختون اور سندھ کو سرِفہرست قرار دیا جاتا رہا ہے۔ لیکن حکومت کی حالیہ مہم کے دوران بجلی چوری میں پنجاب اور خاص طور پر لاہور سرفہرست آگیا ہے۔ ادھر اگلے دنوں میں کے الیکٹرک کو قرار واقعی کارکردگی دکھانے کی ہدایت کردی گئی ہے۔ جبکہ کے الیکٹرک کی جانب سے نادہندہ سرکاری اداروں کے واجبات سرکاری سطح پر وصول کرنے کی منصوبہ بندی بھی کی گئی ہے۔ جس پر عملدرآمد اسی ماہ ہونے کا امکان ہے۔

واضح رہے کہ وفاقی نگران حکومت نے بجلی چوری کو سرکلر ڈیٹ کا ایک اہم عنصر قرار دیتے ہوئے بجلی چوری روکنے کی مہم شروع کی ہے۔ جس میں نادہندگان سے وصولی بھی شامل ہے۔ اس مہم کے دوران ہزاروں گھریلو صارفین کے کنکشن منقطع ہوچکے ہیں۔ لیکن کئی بااثر شخصیات اور ان کے بزنس، باقاعدہ نظر انداز دکھائی دیتے ہیں۔

ایک ماہ کے دوران (چھ اکتوبر تک) کے اعدادوشمار کے مطابق مجموعی طور پر بجلی چوری کے پینتالیس ہزار چار سو تریپن کیس سامنے آئے۔ اندراجِ مقدات کی پینتیس ہزار چار سو چھیاسٹھ درخواستیں دی گئیں، جن میں سے اٹھائیس ہزار چھیانوے مقدمات درج ہوئے۔ تیرہ ہزار سات سو سڑسٹھ افراد گرفتار کیے گئے، جن میں سے تقسیم کار کمپنیوں کے گیارہ ملازمین بھی شامل ہیں اور ایک سو چھتیس کو معطل کیا گیا ہے۔

ان ملازمین میں بھی سب سے زیادہ تعداد لیسکو ملازمین کی ہے۔ اس مہم کے دوران اب تک کے اعداد و شمار میں بجلی کی دس تقسیم کار کمپنیوں میں سے پنجاب کی کمپنیاں دوسرے صوبوں کے مقابلے میں زیادہ متحرک ہیں اور انہوں نے سب سے زیادہ کنکشن بھی منقطع کیے۔ بجلی چوروں میں سے پیپلز پارٹی کے سابق صوبائی وزیر ملک سعید ظفر پڈھیار، پی پی لاہور کے سابق صدر حاجی عزیزالرحمان چن کی زرعی و صنعتی، نون لیگ کی سابق رکن صوبائی اسمبلی رخسانہ کوثر کی گھریلو بجلی چوری اور لاہور کے ڈان کہلانے والے گوگی بٹ کے خاندان کی بجلی چوری بھی شامل ہے۔

ایک مہینے کی مہم میں بجلی چوروں کے جو اعدادوشمار سامنے آئے۔ ان میں لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی (لیسکو) میں سب سے زیادہ بجلی چور پائے گئے۔ پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو) دوسرے، ملتان الیکٹرک کمپنی (میپکو) تیسرے، کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی چوتھے، فیصل آباد الیکٹرک کمپنی (فیسکو) پانچویں نمبر پر رہی۔ گوجرانوالہ الیکٹرک سلائی کمپنی (گیپکو)، اسلام آباد الیکٹرک کمپنی (آئیسکو جو ریاست آزاد جموں کشمیر میں بھی بجلی فراہم کرتی ہے)، حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (حیسکو)، سکھر الیکٹرک سپپلائی کمپنی (سیپکو) اور ٹرائبل ایریاز سپلائی کمپنی (ٹیسکو) دسویں نمبر پر رہی۔ ذرائع کے مطابق اب کے الیکٹرک بھی بجلی چوری کیخلاف اپنی حکتِ عملی میں تبدیلی اور سخت عملی اقدامات کی طرف بڑھنے والی ہے۔

واضح رہے کہ کچھ عرصہ قبل کراچی میں بجلی چوروں کیخلاف آپریشن بڑے بلند بانگ دعوئوں کے ساتھ شروع کیا گیا تھا۔ ابتدا میں کے الیکٹرک کی جانب سے موثر کارروائیاں بھی کی گئیں۔ تاہم حالیہ دِنوں میں یہ آپریشن ٹھنڈا پڑا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس کی ایک بڑی وجہ کے الیکٹرک، کے بعض بدعنوان اہلکار بھی ہیں۔ ان رشوت خور ملازمین کی جانب سے کنڈا مافیا کے خلاف بڑی کارروائی سے گریز کیا جارہا ہے کہ ان کے بھتے بند ہوجائیں گے۔

اسی طرح شہر کی مضافاتی آبادیوں میں کچھ سیاسی پارٹیوں کے مقامی عہدیدار اور کارکنان بھی علاقے کے ووٹرز کی ہمدردی حاصل کرنے کی خاطر غیر قانونی کنکشنز کاٹنے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ شہر کی کچی اور مضافاتی آبادیوں میں محض نمائشی آپریشن کیا گیا اور دوبارہ کنڈوں کا جال بچھادیا گیا۔ اس صورتحال میں باقاعدگی سے بل ادا کرنے والے صارفین زیادہ پریشان ہیں کہ بجلی چوری کے باعث نہ صرف انہیں زائد بلز ادا کرنے پڑتے ہیں۔ بلکہ 6 سے 8 گھنٹے یومیہ لوڈ شیڈنگ کا عذاب بھی جھیلنا پڑتا ہے۔

ادھر آئی ایم ایف کے مطالبے پر بجلی کی قیمتیں بڑھنے کا سلسلہ جاری ہے۔ جبکہ نیپرا نے ملک بھر میں بجلی چوری کو لوڈشیڈنگ اور بڑھتی قیمتوں کا جواز بتایا ہے۔ اس وقت صرف پنجاب میں سیاستدانوں، صنعتکاروں سمیت بڑے بجلی چوروں کیخلاف آپریشن جاری ہے۔ اس حوالے سے اربوں روپے کے جرمانے بھی وصول کئے جارہے ہیں۔

جبکہ کے الیکٹرک نے دعویٰ کیا تھا کہ کراچی میں بجلی چوری زیادہ ہے۔ بڑی بڑی فیکٹریوں، کارخانوں، سیاست دانوں کے بنگلوں، تعمیراتی پروجیکٹس، گڈاپ کے فارم ہائوسز، ملیر کے فروٹ فارم اور اطراف کی آبادیوں میں کوئی قرار واقعی آپریشن نہیں کیا گیا۔ پوش علاقوں میں بھی کوئی خاص کارروائی نہیں کی گئی۔ جبکہ سیاسی پارٹیوں کے دفاتر اور ذمہ داروں کے گھروں پر کوئی چیکنگ تک نہیں کی گئی۔

ذرائع کے مطابق کراچی کی جن کچی آبادیوں میں کے الیکٹرک کے بعض ذمہ دار اور ملازمین خود کنڈے لگوا رہے ہیں۔ ان میں کورنگی ابراہیم حیدری، محمودآباد، شاہ فیصل کالونی، لیاقت آباد، ناظم آباد، سہراب گوٹھ، اورنگی ٹائون، بلدیہ، کیماڑی، گلستان جوہر، گلشن اقبال، شاہ لطیف ٹائون، لانڈھی، بھینس کالونی، فیڈرل بی ایریا، سرجانی، گلشن معمار، نارتھ کراچی، نیوکراچی، نارتھ ناظم آباد اور دیگر شامل ہیں۔ اسی طرح منگھوپیر، لیاری، گڈاپ، معمار صنعتی ایریا، سرجانی، ملیر، شاہ لطیف ٹائون، ماڑی پور اور دیگر جگہوں پر بااثر سیاسی افراد کنڈا مافیا کو چھتری فراہم کر کے ماہانہ بھتہ وصول کر رہے ہیں۔

کورنگی کراسنگ سے ابراہیم حیدری اور ریڑھی گوٹھ تک کھلے عام کنڈے چل رہے ہیں۔ ملیر ندی کے اطراف الفلاح سے شاہ فیصل کالونی نمبر 5 تک ندی بند کے ساتھ ساتھ کنڈوں کی بہتات ہے۔ اسی طرح گجر نالہ کے اطراف لیاری ندی کے اطراف کنڈوں کا بڑا سلسلہ موجود ہے۔