ماضی کے ’’ہیوی ویٹ‘‘ وزرا کو نیب زدہ ہونے کے باعث کابینہ میں شامل نہ کرنے کا تاثر درست نہیں، فائل فوٹو
ماضی کے ’’ہیوی ویٹ‘‘ وزرا کو نیب زدہ ہونے کے باعث کابینہ میں شامل نہ کرنے کا تاثر درست نہیں، فائل فوٹو

سندھ کابینہ بلاول کے لیے بھی کٹھن امتحان بن گئی

ارشاد کھوکھر:

سندھ میں 17 اپریل کو مزید 8 وزرا کے حلف اٹھانے کے بعد صوبائی کابینہ کی تشکیل مکمل ہو چکی ہے۔ جو صوبائی کابینہ سامنے آئی ہے وہ نہ صرف وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ بلکہ خود پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے لیے بھی کٹھن امتحان بن گئی ہے۔ نوجوان چیئرمین اپنا من پسند وزیراعلیٰ لانے میں تو کامیاب ہوئے، لیکن کابینہ کی صورت میں وزیراعلیٰ کی ٹیم بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر تالپور ہائوس میں منتخب کی گئی ہے۔ جس کی ایک مثال یہ بھی دی جارہی ہے کہ ابھی تک جو 21 وزرا اور مشیر جو کابینہ میں شامل ہوئے ہیں ان میں بلاول بھٹو زرداری کا سفارش کردہ صرف ایک وزیر شامل ہے۔

صوبائی کابینہ میں پیپلزپارٹی سندھ کے صدر نثار کھوڑو، امتیاز شیخ، آغا سراج درانی، اسماعیل راہو سمیت کئی ہیوی ویٹ شامل نہیں ہو سکے ہیں ان سمیت کئی دیگر ایم پی ایز کو کابینہ سے دور رکھنے کے لیے دیا جانے والا یہ تاثر غلط ہے کہ اداروں سے ان کی کلیئرنس نہ ہونے کے باعث وہ کابینہ میں شامل نہیں ہو سکے ہیں۔

پیپلزپارٹی کے حلقوں میں اب یہ تاثر عام ہے کہ جو کابینہ تشکیل دی گئی ہے وہ زیادہ ڈیلیور نہیں کر پائے گی جس کا تمام تر ملبہ وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ اور انہیں وزیراعلیٰ بنانے والے بلاول پر گرے گا۔ اور آئندہ 6 ماہ کے اندر صوبائی کابینہ میں ری شفلنگ کرنا ناگزیر ہو سکتا ہے۔ ساتھ ہی ایک دو برس کے اندر خود وزیراعلیٰ کی تبدیلی کو بھی یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔

تفصیلات کے مطابق پہلے مرحلے میں 12 مارچ کو 10 صوبائی وزرا اور 3 مشیروں کے ساتھ صوبائی کابینہ کی تشکیل میں آئی تھی۔ جس کے بعد 17 اپریل کو مزید 8 نئے وزرا کے شامل ہونے سے 18 اراکین کے ساتھ صوبائی کابینہ کی تشکیل مکمل ہو چکی ہے۔ تاہم اب بھی کابینہ میں وزیراعلیٰ سندھ کے 2 مشیروں کے شامل ہونے کی گنجائش موجود ہے۔

صوبائی کابینہ پر نظر ڈالی جائے تو شرجیل انعام میمن، ڈاکٹر عذرا پیچوہو، سید ناصر حسین شاہ، سعید غنی، سردار شاہ سمیت چند وزرا ایسے ہیں جنہیں حکومتی امور کا تجربہ حاصل ہے۔ جبکہ باقی بیشتر وزیر اور مشیر ایسے ہیں جو حکومتی امور کے متعلق زیادہ تجربہ نہیں رکھتے۔ یہ اور بات ہے کہ بیشتر وزرا ایسے ہیں جو پہلے بھی وزیر اور مشیر رہ چکے ہیں مگر ان کی کارکردگی نمایاں نہیں رہی ہے۔

پہلے مرحلے میں جگہ بنانے میں ناکامی کے بعد پیپلزپارٹی کے کئی سینئر رہنمائوں کو یہ امید تھی کہ دوسرے مرحلے میں شاید وہ کابینہ میں شامل ہو سکتے ہیں۔ لیکن دوسرے مرحلے میں جن 8 وزرا کو شامل کیا گیا ہے ان میں جام اکرام اللہ خان دھاریجو، محمد علی ملکانی، شاہد سلام تھہیم، ریاض شاہ شیرازی، میر طارق علی تالپور، شاہینہ شیر علی، مخدوم محبوب الزماں اور دوست محمد راہموں شامل ہیں۔

خود پیپلزپارٹی کے حلقوں میں یہ بحث عام ہے کہ کیا وجہ ہے کہ تجربہ کار اور پارٹی کے سینئر رہنمائوں کو اس ضمن میں نظرانداز کیا گیا ہے۔ جن میں پیپلزپارٹی سندھ کے صدر نثار احمد کھوڑو، آغا سراج درانی، امتیاز شیخ، اسماعیل راہو، سہیل انور سیال، ساجد جوکھیو، ہری رام کشوری لعل اور 2008ء سے سدا بہار وزیر رہنے والے مکیش کمار چائولہ شامل ہیں۔

اس کے علاوہ کئی اور سابق صوبائی وزرا و مشیروں کو بھی امید تھی کہ شاید اس مرتبہ بھی انہیں کابینہ میں شامل ہونے کا موقع ملے گا۔ ان میں ارباب لطف اللہ، ضیا عباس شاہ، پارس ڈیرو، گیانومل عرف گیان چند اسرانی، جمیل سرمرو، امداد پتافی، منظور وسان، تیمور تالپور و دیگر شامل ہیں۔ پیپلزپارٹی کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ صوبائی کابینہ کے لیے اداروں سے کلیئرنس لینے کے حوالے سے کئی اور نام بھی ارسال کیے گئے تھے، لیکن کلیئرنس نہ ہونے کے باعث وہ فی الحال کابینہ میں شامل نہیں ہو سکے ہیں۔ جبکہ آغا سراج درانی اور مکیش کمار چائولہ سے صدر مملکت آصف علی زرداری کی ناراضگی بھی ہے اور ان کی وہ ناراضگی جائز بھی ہے۔

جبکہ پیپلزپارٹی کے دیگر ذرائع کا کہنا ہے کہ جہاں تک کلیئرنس کا معاملہ ہے تو وہ تھوڑا مشکوک بھی لگتا ہے۔ کیونکہ اگر ایسا مسئلہ ہوتا تو اس وقت بھی کابینہ میں کئی نیب زدہ وزیر شامل ہیں۔ سب سے بڑھ کر بات یہ ہے کہ ٹھٹھہ سے منتخب ہونے والے ایم پی اے علی حسن زرداری کے کارناموں سے کون واقف نہیں ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر ان کی کلیئرنس کیسے ہوگئی۔

ذرائع نے بتایا کہ بیشتر صوبائی وزرا اور مشیروں کو نظرانداز کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بیشتر صوبائی وزرا و مشیر پارٹی کی دیگر قیادت کے فرمانبردار ہونے کے ساتھ ان میں سے کئی ایسے سینئر رہنما ہیں جو بلاول بھٹو زرداری سے زیادہ کلوز رہے ہیں۔ اور اس وقت جو اراکین کابینہ میں شامل ہیں، ان میں سے بیشتر بلاول بھٹو کے ساتھ کلوز نہیں ہیں۔

مذکورہ ذرائع کا کہنا تھا کہ اس کی مثال ہے کہ جو کابینہ تشکیل پائی ہے اس میں بلاول بھٹو زرداری سے زیادہ کلوز یا اس کا سفارشی صرف ایک وزیر سردار محمد بخش مہر ہیں۔ ابھی جو کابینہ تشکیل پائی ہے اس میں زیادہ تر ایم پی اے فریال تالپور کا زور چلا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ فریال تالپور کے زیادہ قریب رہنے والی بعض شخصیات بھی کابینہ میں شامل نہیں ہیں۔ تاکہ یہ تاثر دیا جائے کہ اس مرتبہ نئی شخصیات کو موقع فراہم کیا گیا ہے۔

پیپلزپارٹی سے ہی تعلق رکھنے والے ایک اور اہم ذریعے نے بتایا کہ وزیراعلیٰ سندھ کے نام کا انتخاب اصل میں پارٹی کی 3 اعلیٰ شخصیات کرتی ہیں جن میں صدر آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور فریال تالپور شامل ہیں۔ سندھ کی وزارت اعلیٰ کے لیے تین نام تھے۔ جن میں ناصر حسین شاہ، شرجیل انعام میمن اور مراد علی شاہ شامل تھے اور اس مرتبہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی مذکورہ عہدے کے لیے ترجیح کسی اور کی تھی۔ لیکن بلاول بھٹو زرداری نے بڑا زور لگا کر مراد علی شاہ کو ہی تیسری مرتبہ وزیراعلیٰ بنوایا ہے۔

مذکورہ ذریعے نے اس بات پر اتفاق کیا کہ جس نوعیت کی صوبائی کابینہ بنی ہے وہ زیادہ ڈیلیور نہیں کر سکے گی۔ ایسا ہونے کی صورت میں سارا ملبہ وزیراعلیٰ سندھ کی کارکردگی پر پڑ سکتا ہے۔ جس کے بعد خود مراد علی شاہ کی کارکردگی پر کئی سوالات اٹھنے شروع ہو جائیں گے اور لگتا ہے کہ آنے والے 6 ماہ کے اندر صوبائی کابینہ میں ری شفلنگ کرنے کی ضرورت پڑے گی۔ اس امکان کو بھی یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ صرف کابینہ کی ری شفلنگ نہیں بلکہ خود وزیراعلیٰ سندھ کی تبدیلی بھی ہو سکتی ہے۔

مراد علی شاہ کی وزارت اعلیٰ کے حوالے سے ماضی کی حکومت پر نظر دوڑائی جائے تو صوبائی انتظامیہ اس کے خاصے کنٹرول میں رہی ہے۔ اور کئی اہم محکموں کا قلمدان بھی ان کے پاس رہا ہے۔ جن میں محکمہ خزانہ، محکمہ ترقیات اور منصوبہ بندی، محکمہ داخلہ وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن اس مرتبہ محکمہ داخلہ کا قلمدان ان کے پاس نہیں۔

مذکورہ محکمے کا وزیر ضیاالحسن لنجار ہے جن کا شمار فریال تالپور کی قریبی شخصیات میں ہوتا ہے۔ اس طرح محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات کا قلمدان بھی ناصر حسین شاہ کے پاس ہے۔ اس صورت حال میں پہلے کی طرح سید مراد علی شاہ کے پاس مختلف محکموں کا عملی طور پر انتظام کنٹرول کرنے کے اختیارات نہیں ہوں گے۔ جس کا اندازہ آنے والے چند روز میں ہو جائے گا کہ ان کے بہنوئی اعجاز شاہ صوبائی محکمہ ورکس اینڈ سروسز کے سیکریٹری کے عہدے پر ٹک پاتے ہیں یا نہیں۔

’’چمک‘‘ کے حوالے سے سب زیادہ اہم سمجھے جانے والے محکمہ ورکس اینڈ سروسز کا قلمدان بھی علی حسن زرداری کو سونپا گیا ہے جن کے پاس پہلے ہی محکمہ جیل خانہ جات کا قلمدان تھا۔ علی حسن زرداری کا شمار بھی فریال تالپور کے قریبی شخصیات میں ہوتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ اعجاز شاہ وہاں سیکریٹری کی حیثیت سے ٹک پائیں، لیکن زیادہ تر امکان یہ ہے کہ علی حسن زرداری یہ نہیں چاہیں گے کہ وزیراعلیٰ سندھ کا بہنوئی ان کے محکمہ کا سیکریٹری ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔