محمد قاسم :
پشاور سمیت خیبر پختون کے مختلف اضلاع میں مقیم افغان خواجہ سرائوں نے واپس اپنے ملک جانے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں ان کو جو سہولیات میسر ہیں وہ افغانستان میں ملنا مشکل ہیں۔ ان کو افغانستان میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہاں انہیں عزت کے ساتھ دو وقت کی روٹی مل رہی ہے۔ ان کی پیدائش پاکستان کی ہے اور اس کو ہی اپنا وطن سمجھتے ہیں۔ حکومت پاکستان سے درخواست ہے کہ افغان خواجہ سرائوں کے ساتھ نرمی برتی جائے اور ان کو پاکستانی شہریت دینے سمیت پاکستان میں ٹھہرنے کی اجازت دی جائے۔ بعض افغان خواجہ سرا ایسے ہیں جن کے پاس اتنا پیسہ اور سرمایہ نہیں کہ کسی دوسرے ملک جا سکیں۔ کیونکہ امن و امان کی خراب صورتحال کی وجہ سے بیشتر خواجہ سرا، پاکستان سے افغانستان کے بجائے دوسرے ممالک کو منتقل ہوئے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق حکومت پاکستان کی جانب سے افغان مہاجرین کو واپس جانے کی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد افغان مہاجرین کی اپنے خاندانوں کے ہمراہ واپسی جاری ہے اور اس سلسلے میں باقاعدہ صوبے کے مختلف اضلاع میں کیمپ بھی قائم کئے گئے ہیں، جہاں پر واپس جانے والے افغان باشندوں کو سہولیات بھی فراہم کی گئی ہیں۔ تاہم اس صورتحال میں افغان خواجہ سرائوں نے واپس جانے سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان میں جو سہولیات ان کو میسر ہیں وہ افغانستان میں ملنا مشکل ہیں۔ کیونکہ افغانستان اور پاکستان کے حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
یہاں پاکستان میں ان کو تمام تر سہولیات حکومت کی جانب سے میسر ہیں اور عزت کے ساتھ د ووقت کی روٹی بھی کما رہے ہیں۔ جبکہ افغانستان میں اس طرح کی سہولیات ان کو معلوم ہے کہ ملنا انتہائی مشکل ہے۔ اس لئے حکومت پاکستان ان کے ساتھ نرمی کا مظاہرہ کرے اور ان کو شہریت دینے سمیت واپس نہ بھیجا جائے۔ افغان خواجہ سرائوں کے مطابق پاکستان میں موجود خواجہ سرائوں کے لئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں بھی حصہ رکھا گیا ہے اور ان کو ٹرانسپورٹ سمیت دیگر مقامات پر حکومت نے سہولیات میسر کی ہیں۔ چونکہ ان کی پاکستانی خواجہ سرائوں سے قریبی دوستی بھی ہے اس لئے وہ ان سہولیات سے مستفید ہوتے ہیں تو اس کا فائدہ انہیں بھی پہنچتا ہے۔
پشاور کے مصروف ترین علاقے ڈبگری میں افغان لباس میں ملبوس ایک خواجہ سرا نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اپنا فرضی نام (پلوشہ) بتاتے ہوئے کہا کہ اس کی عمر اس وقت 24 سال ہے اور اس کے والدین پاکستان میں ہیں یا واپس افغانستان چلے گئے، اس کو کچھ معلوم نہیں کیونکہ پیدائش کے بعد جب اس کے والدین کو معلوم ہوا کہ وہ عام لوگوں جیسا نہیں تو اس کو لڑکپن میں ہی گھر سے نکال دیاگیا تھا۔ تاہم پاکستانی خواجہ سرا کمیونٹی نے اس کی بھر پور مدد کی اور اپنے ساتھ رہنے کے لئے جگہ بھی دی اور معاشرے کا ایک کارآمد شہری بننے کیلئے حکومت پاکستان نے بھی اس کا بھر پور ساتھ دیا ہے۔
اسی بنا پر وہ حکومت پاکستان کا انتہائی مشکور ہے۔ اس کے مطابق بیشتر افغان خواجہ سرا مردان، چارسدہ اور سوات سمیت پشاور کے مضافاتی علاقوں میں رہائش پذیر ہیں۔ ان کو پاکستان سے نہ نکالا جائے اور یہاں پر رہنے کی اجازت دینے سمیت پاکستان کی شہریت دی جائے۔ کیونکہ اگر دہشت گردی کی بات کی جائے تو خواجہ سرا کیسے دہشت گردی کر سکتے ہیں اور معاشی مسائل بھی پاکستانیوں کے لئے پیدا نہیں کر سکتے۔ کیونکہ وہ خود شادی بیاہ کی تقریبات میں جا کر دو وقت کی روٹی کماتے ہیں۔
اس کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان میں خواجہ سرائوں کو سنگین مسائل درپیش ہیں۔ اسی لئے وہ پاکستان میں رہنے کو ہی ترجیح دے رہے ہیں۔ پلوشہ کے ایک قریبی دوست خواجہ سرا، عرفی نے بتایا کہ ’’ہم ایک فیملی کی طرح یہاں پر زندگی گزار رہے ہیں اور خواجہ سرائوں کی جیسے الگ پہچان ہوتی ہے ویسے ہی ہماری کی زندگی کا گزر بسر بھی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی صورت میں ہی ہوتا ہے۔ ہمارے بہت سے ساتھی امن و امان کی خراب صورتحال کی وجہ سے دوسرے ممالک جا چکے ہیں، لیکن جو افغان خواجہ سرا سرمایہ نہیں رکھتے، وہ ہمارے ساتھ ہی یہاں پر رہ رہے ہیں۔‘‘