امت رپورٹ :
اسرائیل کا رقصِ ابلیس جاری ہے۔ الجزیرہ کے لائیو ٹریکر کے مطابق، نسل کشی شروع ہونے کے بعد سے اب تک اکسٹھ ہزار سات سو نو فلسطینی شہید کیے جا چکے ہیں، جن میں سترہ ہزار چار سو بانوے بچے بھی شامل ہیں۔ ایک لاکھ گیارہ ہزار پانچ سو اٹھاسی فلسطینی زخمی ہوئے ہیں۔ جب کہ چودہ ہزار دو سو بائیس لاپتا ہیں اور قیاس کیا گیا ہے کہ وہ اب زندہ نہیں ہیں۔
ان اعداد و شمار میں غذائی قلت، یا طبّی دیکھ بھال کی کمی کی وجہ سے ہونے والی اموات شامل نہیں ہیں، کیونکہ غزہ کے زیادہ تر اسپتالوں کو اسرائیل نے تباہ کر دیا ہے۔ یوں اب تک شہادتوں کی مجموعی تعداد پچھتر سے اٹھہتر ہزار تک ہوسکتی ہے، جب کہ روزانہ کی بنیاد پر شہادتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اور پھر بھی، مسلم دنیا کے بیشتر حکمرانوں کا مزاج، اگرچہ ہمدردی پر مبنی ہے، لیکن عملی طور پر فلسطینیوں سے خود کو انہوں نے الگ رکھا ہوا ہے۔ عمل کے بغیر ہمدردی، جرم ہے۔ بڑے مسلم ممالک نے اب تک اسرائیل پر کسی مربوط اقتصادی یا سیاسی دباؤ کی کوشش نہیں کی ہے۔ اس کے بجائے، بہت سے ممالک نے اپنے تعلقات مضبوط کیے ہیں۔ کچھ مالی فوائد کے معاہدوں میں مصروف ہیں اور بہت سے خوف کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں ۔ درحقیقت غزہ، مسلم دنیا کے ضمیر کا قبرستان بن گیا ہے۔
گزشتہ ماہ کی سات تاریخ کو نیوز ویک نے رپورٹ کیا کہ سعودی عرب، امریکا کے ساتھ ایک اعشاریہ تین کھرب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ لندن اسکول آف اکنامکس کے بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر فواز گرجیس کہتے ہیں ’’دنیا میں اس وقت سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے مقابلے میں کوئی اور ایسا نہیں ہے جو ٹرمپ سے اپنی بات منوانے کے لیے دباؤ ڈالنے کی پوزیشن رکھتا ہو۔‘‘ رائٹرز نے اکیس مارچ کو رپورٹ کیا کہ متحدہ عرب امارات نے وائٹ ہائوس میں ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کے بعد امریکی معیشت میں ایک اعشاریہ چار کھرب ڈالر کی سرمایہ کاری پر اتفاق کیا ہے۔ یہ فلسطینیوں کے خون پر سودے بازی کے مترادف ہے۔ امریکا کی مدد اور شہ پر ہی اسرائیل، فلسطینو ں کی نسل کشی کررہا ہے۔
گلوبل فائر پاور کے مطابق، ترکی، پاکستان، ایران، مصر اور انڈونیشیا دنیا کی بڑی اور طاقت ور فوجیں رکھنے والے بیس ممالک میں شامل ہیں۔ جبکہ سعودی عرب چوبیسویں نمبر پر ہے اور مسلم ممالک میں پچپن اعشاریہ چھ ارب ڈالر کے ساتھ سب سے زیادہ فوجی بجٹ رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ درجنوں مسلم ممالک کے پاس کافی عسکری و اقتصادی صلاحیت ہے۔ تاہم فلسطینیوں کی مدد کے لیے میدان میں آنا تو دور کی بات ہے۔ اس کے برعکس غزہ پر بمباری کے دوران مصر، اردن اور سعودی عرب نے اسرائیل کی طرف چلائے جانے والے ایرانی میزائلوں کو روکنے میں مدد کی۔ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ پورا مغرب فلسطینیوں کی نسل کشی پر متحد ہے۔ اسرائیل کو ہتھیار، فنڈز اور سیاسی چھتری فراہم کررہا ہے۔ ایسے میں مسلم ریاستیں یہ مقابلہ کررہی ہیں کہ اخلاقی پستی کی گہرائی میں کون زیادہ اتر سکتا ہے۔
کیج انٹرنیشنل کے ریسرچ ڈائریکٹر ڈاکٹر عاصم قریشی نے خبردار کیا ہے کہ مسلم دنیا کو صرف سیاسی بحران ہی نہیں، بلکہ اخلاقی اور روحانی تنزلی کابھی سامنا ہے۔ اسلامی اسکالرز کے نام ایک کھلے خط میں، وہ پوچھتے ہیں ’’اگر علمائے کرام، انبیاؑ کے وارث ہیں تو انہوں نے مذہبی ہدایات اور حقیقی دنیا کے عمل کے درمیان اتنا فاصلہ کیوں پیدا کیا؟‘‘ ڈاکٹر قریشی کے بقول مذہبی قیادت کا زیادہ تر حصہ خیراتی مہمات اور دعائوں میں مصروف ہے۔
جہاں ایک طرف فلسطینیوں کی بے رحم نسل کشی جاری ہے ۔ وہیں، اسلام کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک مسجد اقصیٰ، بدستور خطرے میں ہے۔ کیونکہ بہت سے انتہا پسند صیہونی گروہ کھلے عام اس کی بنیادوں پر یہودی عبادت گاہ بنانے کے عزائم رکھتے ہیں۔ یہ گروہ نہ صرف مسجد الاقصیٰ کو منہدم کرنے کا خواب دیکھتے ہیں، بلکہ سرگرمی سے اس کی تیاری کر رہے ہیں۔
عیدالفطر سے ایک ہفتہ قبل چوبیس مارچ کو اسرائیل نے جواں سال فلسطینی صحافی حسام شبات کو قتل کر دیا، جو غزہ میں اسرائیلی دہشت گردی کی لمحہ بہ لمحہ صورتحال سے دنیا کو آگاہ کر رہا تھا۔ اپنے قتل سے چند گھنٹے پہلے، شبات نے مسلمانوں کو پکارا۔ شبات کے آخری الفاظ، جو بعد از شہادت جاری کیے گئے، زندہ لوگوں سے زیادہ بلند آواز میں گونج رہے ہیں۔ اس نے کہا ’’میں آپ سے کہتا ہوں کہ غزہ کے بارے میں بات کرنا بند نہ کریں۔ دنیا کو اس سے نظریں نہ پھیرنے دیں۔ لڑتے رہیں، ہماری کہانیاں سناتے رہیں۔ جب تک فلسطین آزاد نہیں ہو جاتا‘‘۔
ضروری نہیں کہ غزہ مسلم دنیا کی اخلاقی حیثیت کا قبرستان ہو۔ اگر امت مسلمہ کی اقتصادی، سیاسی اور فوجی طاقت کا صرف ایک حصہ بھی متحد ہوکر میدان میں اتر جائے تو غزہ، مسلم دنیا کا اہم ٹرننگ پوائنٹ بن سکتا ہے۔ اس مایوسی کے عالم میں مفتی تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمان سمیت دیگر ممتاز علما کا جرات مندانہ فتویٰ تازہ ہوا کا جھونکا ہے، جس میں غزہ کے دفاع کے لیے مسلم دنیا کے حکمرانوں سے کہا گیا ہے کہ عسکری مداخلت کریں، افواج بھیجیں۔ غزہ کی صورت حال پر جہاد فرض ہو چکا ہے۔