جموں میں ہندو بلوایئوں کی جانب سےلگائی آگ شعلے اگل رہی ہے ۔فائل فوٹو
جموں میں ہندو بلوایئوں کی جانب سےلگائی آگ شعلے اگل رہی ہے ۔فائل فوٹو

مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پر سیدھی گولیاں۔ہندو بلوایئوں کو کھلی چھوٹ

پلوامہ حملے کے بعدپرتشدد مظاہروں اورمسلمانوں پر حملوں کے دوران سب سے زیادہ حیران کرنے والی بات ہندو بلوایئوں کو فری ہینڈ دینا تھا۔
بھارتی خفیہ ایجنسیوں نے بر وقت خبردیدی تھی کہ جموں میں حالات بے قابو ہو سکتے ہیں، لیکن گورنر ستیہ پال اورمرکزی انتظامیہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہی۔
نہ تو گجر نگر، ریزیڈنسی اور جانی پور جیسے حساس علاقوں میں سیکیورٹی فورسز تعینات کی گئی اور نہ ہی سیکیورٹی فورسز کو فسادیوں کو قابو میں کرنے کا حکم دیا گیا۔
جمعہ کو جب ہندو فسادیوں کا گروہ وویکا نند چوک پہنچا تو مظاہرین کو روکنے کے لیے پولیس کا کوئی بندو بست نہیں تھا اور ایسی کوئی کوشش نظر نہیں آئی جس سے یہ محسوس ہو کہ مظاہرین کو حساس علاقوں میں گھسنے سے روکا جائے گا۔
اس کی وجہ سے جمعہ کی صبح شروع ہوا تشدد بغیر روک ٹوک کے دوپہر تک جاری رہا اور دوپہر بعد انتظامیہ نے کرفیو لگانے کا اعلان کیا ،لیکن جب تک سیکڑوں گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا گیا تھا۔
گجر نگر سے وویکانند چوک تک کا علاقہ جنگ کے میدان میں تبدیل ہو چکا تھا اور پورے شہر میں پرائیویٹ گاڑیاں جلتی نظر آ رہی تھیں۔
ایک افسر نے بتایا کہ حساس علاقوں میں فوج اور پولیس کے جوان آ چکے تھے لیکن ان کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے کیونکہ ہندو بلوایئوں کو قابو میں کرنے کے لیے ان کے پاس کوئی حکم نہیں تھا۔
اس افسر کا کہنا تھا کہ پولس یا فوج اپنی جانب سے کوئی بھی کارروائی نہیں کرتی ،کوئی بھی کارروائی کرنے کے لیے انہیں اوپر سے حکم جاری ہوتے ہیں اور جمعہ کو جموں میں ایسا نہیں ہوا۔
اس پولس افسر کے مطابق گورنر انتظامیہ کی نیند اس وقت کھلی جب میڈیا اور سول سوسائٹی نے جموں کے بے قابو حالات دکھانا شروع کر دیے ۔
جموں میں جب حالات پوری طرح بے قابو ہو چکے تھے تب کہیں جا کر کرفیو کا اعلان کیا گیا تاہم جموں پویلس نے اتوار کو دعویٰ کیا کہ اس نے فساد اور آگ زنی کے الزام میں 100 سے زیادہ افرد کو گرفتار کیا ہے۔
جمو ں کے اس تشدد پر جموں چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر راکیش گپتا نے کہاجمعرات کی شام سے ہی جمو ں میں فرقہ وارانہ تناؤ پیدا ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا تھا لیکن انتظامیہ نے کسی بھی حساس علاقہ میں حفاظت کا انتظام نہیں کیا ۔

واضح رہے جمو ں چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے ہی پلوامہ حملہ کے احتجاج میں جمعہ یعنی 15 فروری کو بند کا اعلان کیا تھا ۔ انہوں نے جموں میں ہوئے واقعہ کو شرمناک بتاتے ہوئے کہا کہ اگر انتظامیہ نے بروقت حفاظتی انتظام کیے ہوتے تو اتنا نقصان نہ ہوتا۔
دوسری جانب اکنامکس الائنس کے چئیرمین محمد یاسین خان نے بھی فسادیوں کو کھلی چھوٹ دینے کے لیے حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا انہوں نے کہا اس دوران ایک خاص طبقہ کو نشانہ بنایا گیا۔
یاسین خان جو کشمیر ٹریڈرس اینڈ مینو فیکچرر فیڈریشن کے صدر بھی ہیں کا کہنا ہے کہ کشمیر میں تو مظاہرین پر پیلٹ اور بلٹ کا استعمال ہوتا ہے لیکن جموں کے بلوایئوں کو کھلی چھوٹ دینے سے لگتا ہے کہ انہیں سیاسی سرپرستی حاصل تھی۔
پلوامہ حملہ کے بعد جموں میں ہوئے تشدد میں سو سے زیادہ گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا گیا تھا اور درجنوں افراد زخمی ہو گئے تھے ۔ ساتھ میں وادی سے سرکاری ملازمین کے گھروں پر پتھراؤ کیا گیا اور طلبا کو نشانہ بنایا گیا۔
ادھر خبریں ہیں کہ کرفیو کے باوجود اورفوج کی موجودگی کے با وجود دنگائیوں نے مسلمانوں کے تجارتی اداروں کو نشانہ بنایا اور قومی شاہرہ پر کشمیری گاڑیوں پر حملے کیے۔