ہماری ابتدا ہی سے یہ سوچ رہی ہے کہ ماحول، انسان پر اچھے، بُرے دونوں قسم کے اثرات ڈالتا ہے۔ کسی کو آگے بڑھنے کا شوق ہو، تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہو، اپنے بچوں کی صحیح تعلیم وتربیت کرنا چاہتا ہو تو اس کو ایسے علاقے یا جگہ پر رہنا چاہیے جہاں کا ماحول اُس کے اِن مقاصد کے حصول میں معاون ہو، جہاں کے رہنے والوں کو پڑھنے لکھنے کا شوق ہو، جہاں اچھے اسکول اور کالج ہوں، بہتر سماجی اور معاشرتی فضا ہو۔ ہم محسوس کر رہے تھے کہ کیماڑی کے ماحول میں ان کیفیات کی بڑی کمی تھی اور ہم آزاد کشمیر کے دیہی ماحول سے کراچی شہر میں نہیں بلکہ ایک اور گاﺅں میں آگئے تھے جس کانام کیماڑی اور بھٹہ ویلیج تھا۔ یہاں کے زیادہ تر باسی مزدور پیشہ لوگ تھے۔ انہیں اپنے بچوں کو پڑھانے کا کچھ زیادہ شوق نہیں تھا۔ بیشتر لوگ کَچھ (ہزارہ) کے رہنے والے تھے۔ ہم اسلامی جمعیت میں شامل ہو چکے تھے۔ ہمیں یہ احساس ستانے لگا کہ کُھوئی رَٹّہ سے ڈیڑھ ہزار کلومیٹر دُور کراچی آکر بھی اگر دیہی علاقے ہی میں رہنا تھا تو یہاں آئے ہی کیوں تھے؟ یہی سبب تھا کہ یہ علاقہ چھوڑنے کا خیال بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ ہمیں کیماڑی میں رہتے ہوئے چار سال سے کچھ زیادہ عرصہ ہو چکا تھا۔ ہم نے اِس احساس کا ذکر اپنے دوست بشیر سے بھی کیا جو بھٹہ ویلیج میں اپنے رشتے داروں کے ساتھ رہائش پذیر تھے اور مشورہ دیا کہ وہ بھی یہاں سے کسی دوسری بہتر جگہ منتقل ہو جائیں۔ ہم نے کہا کہ آپ کی شادی ہو چکی ہے، کل بچے ہوں گے، اُن کی تعلیم اور تربیت کی ضرورت ہوگی جس کا کیماڑی اور بھٹہ ویلیج میں فقدان ہے۔ ابھی سے منصوبہ بندی کر لیں کیوںکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مشکلات میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ لیکن اُن کی ہمیشہ یہی دلیل ہو تی کہ موجودہ آمدنی کے ساتھ اِسی جگہ رہا جا سکتا ہے۔ پھر ہمارے سارے رشتے دار اور علاقے کے لوگ بھی کیماڑی ہی میں مختلف جگہوں پر رہتے ہیں جو اُن کی ملازمت کی جگہ، کراچی بندرگاہ کے بہت ہی قریب ہے۔ ہمیں اُن کے یہ سارے دلائل بہت کم زور لگتے تھے لیکن ہم کر بھی کیا سکتے تھے؟ وہ اپنے بارے میں کچھ بھی فیصلہ کرنے میں پوری طرح آزاد تھے۔ مگر ہم اپنی سوچ پر قائم رہے اور فیصلہ کر لیا کہ چاہے کچھ بھی ہو، ہمیں کیماڑی سے کسی دوسری جگہ منتقل ہو جانا ہے۔ یہ فیصلہ کرنا آسان نہیں تھا۔ تاہم، کوئی غیبی طاقت ہمیں مجبور کر رہی تھی اور بار بار ہمارے ذہن میں یہی سوچ ڈال رہی تھی۔
ملازمت کے اُن تین برسوں میں ہم نے کالج میں داخلہ بھی لے لیا تھا۔ کالج اور کے پی ٹی میں کئی دوست بھی بنا لئے تھے جن سے روزانہ مستقبل کے بارے میں تبادلہ¿ خیال کرتے تھے۔ اردو کالج میں ہم اسلامی جمعیت طلبا کے ناظم بھی بنا دیئے گئے تھے۔ اس کی وجہ سے ساتھیوں میں اضافہ بھی ہوگیا تھا۔ اُن میں ایک محمد اسحاق سپرا بھی تھے۔ وہ اب لاہور میں بڑے وکیل اور ہمارے بہترین دوست ہیں۔ ان کے بیٹے افضال سپرا، نیویارک میں اٹارنی ہیں۔
چناںچہ ہم نے کیماڑی کو خدا حافظ کہنے کا پختہ ارادہ کر لیا اور وہاں سے کہیں اور منتقل ہونے کے منصوبے بنانے لگے تو اللہ تعالیٰ نے اس کا موقع بھی عطا کر دیا۔ ایک دن ہم نے اِس کا ذکر اپنے کے پی ٹی کے بااعتماد دوست محمد اسحاق سپرا سے کیا، جو اُن دنوں جٹ لائن میں رہ رہے تھے۔ اُنہوں نے اِس خیال کی پُرزور حمایت کرتے ہوئے ہمارے ساتھ رہنے پر آمادگی ظاہر کردی۔ ہم دونوں نے جگہ کی تلاش شروع کردی۔ اس میں کام یابی ہوئی اور ہمیں صدر سے تھوڑے ہی فاصلے پر بی ہائنڈ جیکب لائنز میں ایک کوارٹر مناسب کرائے پر مل گیا۔ چناں چہ ہم دونوں اس نئی جگہ منتقل ہوگئے۔
ہمیں وہاں رہتے ہوئے ایک سال بھی نہیں ہوا تھا کہ اسحاق بھائی چھٹیوں پر چلے گئے جہاں سے اُنہوں نے اطلاع دی کہ اُن کی شادی ہوگئی ہے اس لئے ہم اپنی رہائش کے لئے کوئی دوسری جگہ تلاش کر لیں۔ ہماری اُس علاقے کے مکینوں سے کچھ واقفیت ہوگئی تھی۔ اُن سے ذکر کیا تو ایک صاحب نے محمد لطیف ورک نامی ایک نوجوان سے ملاقات کرائی جو قریب ہی رہتے تھے۔ وہ بھی ہماری طرح ”سنگل“ تھے۔اُنہوں نے ہمارا باقاعدہ انٹرویو لیا اور مطمئن ہونے پر اپنا ”کوارٹر میٹ“ بنانے پر رضامند ہو گئے، یوں ہم اُن کے ہاں منتقل ہوگئے۔ ان کا کوارٹر بلکل بی ہائنڈ جیکب لائنز میں اسی جگہ واقع تھا جہاں 1992 کے ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کے دوران ایم کیو ایم کے مخالفین کے خلاف خوفناک ٹار چر سیل کا انکشاف ہوا تھا اور ٹار ر کےلئے استعمال ہونے والے آلات لوہے کی زنجیریں، لکڑی کے شکنجے، رسیاں پھندے اور پتہ نہیں کیا کیا برآمد ہوا تھا۔ محمد لطیف محکمہشماریات میں ملازمت کرتے تھے اور مزید تعلیم بھی حاصل کر رہے تھے۔ اُن کے دوسرے روم میٹ احمد حَسن تھے۔ یہ دونوں اُس وقت طالب علم تھے، بڑے ذہین اور محنتی۔ ہر وقت اپنے امتحان کی تیاری میں مصروف رہتے، ورک صاحب نے بعد میں کیمبرج یونیورسٹی انگلینڈ سے تعلیم میں پی ایچ ڈی کیا اور اعلیٰ تعلیم کے ادارے ”ہائرایجوکیشن کمیشن“ میں سیکریٹری کے عہدے پر فائز ہوئے۔آج کل وہ اسلام آباد میں ملازمت سے سبک دوشی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ان سے رابطہ رہتا ہے۔جب کہ احمد حَسن سول سروس کے مقابلے کے امتحان کی تیاری کر رہے تھے۔ان سے حال ہی میں عبد الطیف ورک کے توسط سے ایک ماہ قبل ہی رابطہ ہوا اور پرانی یادوں نے ہم کو آج سے ۵۵ سال قبل کے دور میں پہچادیا۔
یاد ماضی عذاب ہے یا رب
وہ سول سروس کا امتحان تو نہ دے سکے لیکن وہ سرگودھا میں ہومیو ہیتھ کے بڑے کامیاب اور مقبول ڈاکٹر ہیں۔نصف صدی بعد ان سے بات کر کے ہم تینوں کو جو خوشی ہوئی وہ ناقابل بیان ہے۔پڑھائی لکھائی کے اس ماحول نے ہمیں بڑا فائدہ پہنچایا۔
اگر ہماری یاد داشت درست کام کر رہی ہے تو یہ نومبر یا اکتوبر 1965 کا زمانہ تھا جب ہم اسحاق سپرا سے الگ ہوکر لطیف ورک کے کوارٹر نما گھر میں اُن کے ساتھ رہنے لگے۔ یہیں رہائش پذیر تھے جب کے پی ٹی سے استعفے اور کپڑے کی دکان پر سیلزمینی نہ ملنے کا واقعہ پیش آیا۔ یہی گھر تھا جہاں والد صاحب آزاد کشمیر سے پہلی بار کراچی آئے تھے۔ اسی جگہ رہ کر ہم نے بی اے کے امتحان کی تیاری کی تھی اور 1966 میں بی اے کا امتحان پاس کیا تھا، اسی جگہ رہ کر زکریا صدیقی کے ساتھ پرنٹنگ کا کام شروع کیا تھا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ گھر ہمارے لئے نہایت سعد ثابت ہوا تھا۔ پھر یہیں سے ہم نے اپنے شفیق اور مہربان بزرگ، امیر جماعت اسلامی کراچی، چودھری غلام محمد کو بی اے کا امتحان پاس کرنے اطلاع دی تھی اور اُن سے پوچھا تھا کہ اب ہمیں آگے کیا کرنا چاہیے؟ اُنہوں نے صرف ایک سوال پوچھا تھا کہ ”تمہاری انگریزی کیسی ہے؟“ اور ہمارا جواب سن کر کہ ”بہتوں سے بہت اچھی ہے۔“ کچھ سوچے سمجھے بغیر ہی ہمارے مستقبل کے پیشے کا فیصلہ صادر کرتے ہوئے صحافت کا پیشہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ اُن کی ہدایت بلکہ ترغیب پر ہی ہم نے کراچی یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں داخلہ لیا تھا اور یہی وہ گھر ہے جہاں سے ہم ”کالا گاؤن” پہن کر کراچی یونیورسٹی جانے لگے تھے۔
ہم اُسی گھر میں تھے جب ہمارا تقرر روزنامہ جنگ میں ہوا۔
جنگ میں ملازمت کا خیال ڈالنے والے بھی چودھری غلام محمد مرحوم تھے۔ ہم بی اے فائنل میں پاس ہونے کی اطلاع دینے صادق منزل آرام باغ میں اُن کے دفتر گئے۔ اُنہوں نے اُسی طرح خوشی کا اظہار کیا جیسے کوئی اپنے بیٹے کے لئے کرتا ہے۔ مٹھائی منگوائی اور دفتر کے عملے میں تقسیم کی۔ ہم نے اُن سے پوچھا، ”چودھری صاحب! اب آگے کیا کرنا ہے؟“ تو انہوں وہی انگریزی والا سوال پوچھا تھا۔ جب ہمارے صحافی بننے کا فیصلہ ہوگیا تو ہم نے اُن سے اگلا سوال کیا۔ ”اردو کے اخبار تو ایک دو ہی ہیں، ہمیں ملازمت کہاں ملے گی؟“ وہ جیسے اس سوال کے لئے تیار ہی تھے۔ ”جنگ میں۔“ اُن کا فوری جواب تھا۔لیکن یہ کام کیسے ہوگا؟ ہم متجسس تھے۔وہ کہنے لگے کہ اِس کا جواب وہ اُس وقت دیں گے جب ہم اُنہیں کراچی یونیورسٹی میں ایم اے صحافت میں داخلے کی رسید دکھائیں گے۔ یہ ہمارے لئے ایک نیا چیلنج تھا۔ ہمیں علم نہیں تھا کہ یونیورسٹی کہاں ہے؟ اور اس میں داخلہ کیسے لیا جاتا ہے؟ خیر یہ معرکہ بھی سر کرلیا اور داخلہ لے لیا۔ اُس وقت داخلے آج کل کی طرح مشکل نہیں تھے۔ چودھری صاحب کو رسید دکھائی تو بہت خوش ہوئے۔ ہم نے پھر وہی سوال دُہرایا کہ نوکری کہاں ملے گی؟ تو کہنے لگے، ”جنگ اخبار میں میرے ایک بھائی ہیں، یوسف صدیقی، تم اُن کے پاس جاؤ۔ میرے حوالے سے بات کرنا۔ وہ اس کا کوئی نہ کوئی انتظام کردیں گے۔ اچھے آدمی ہیں، وقت کے پابند مگر ذرا سخت مزاج ہیں۔ ان دونوں باتوں کا خیال رکھنا۔“ ہم نے اُن کی یہ بات ذہن نشین کر لی اور یونیورسٹی جانا شروع کردیا۔ کچھ دنوں کے بعد جنگ کے دفتر گئے اور یوسف صدیقی صاحب سے ملاقات کی۔ ہم نے اُنہیں ویسا ہی پایا جیسا چودھری صاحب نے بتایا تھا۔ اُنہوں نے ہمیں لندن کے کسی انگریزی اخبار کا ایک مضمون دیا، جس کانام اب یاد نہیں۔انہوں نےکہا، ”اِس کا اردو میں ترجمہ کر کے لاؤں۔” انہوں نے واضح ہدایات بھی دیں کہ ڈکشنری سے مدد لے لو، کوئی حرج نہیں لیکن کسی اور سے ترجمہ مت کرانا۔“ ہم نے تین چار دن میں یہ کام کر لیا اور مضمون، اردو ترجمے کے ساتھ واپس کردیا۔ اُنہوں نے اُسے ہمارے سامنے ہی پڑھا اور مسکراتے ہوئے صرف اتنا کہا، ”ٹھیک ہے۔“ اِس کا مطلب ہم نے یہ لیا کہ ہمارا ترجمہ ان کو پسند آگیا اور ہم اس تحریری اور عملی امتحان میں پاس ہوگئے تھے۔یہ ہمارے لیے بڑے اطمینان کی بات تھی۔اُنہوں نے جانے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا، ”اب جاؤ۔جب جگہ ہوگی تو اطلاع کردی جائے گی۔“ یہ کارروائی تو ہوگئی لیکن ہم نے ملازمت کے لئے کوئی باقاعدہ درخواست نہیں دی تھی۔ یہ مرحلہ ایک دو ماہ بعد پیش آیا۔
ہمارے دوست اور بھائی مجیب الرحمن شامی اُن دنوں کراچی میں تھے اور ہماری اُن سے جان پہچان اور دوستی ہو چکی تھی۔ وہ بھی اُن دنوں بے روزگار تھے اور کبھی کبھی یونیورسٹی آتے تھے۔ روزنامہ حریت میں فیچر لکھتے تھے لیکن باقاعدہ ملازمت نہیں تھی لہٰذا، اخباری ملازمت کی تلاش میں تھے۔ اِس کا اُنہوں نے ہم سے ذکر کیا۔ اُن دنوں ”اخبار جہاں“ شروع ہونے کا اشتہار مسلسل شائع ہو رہا تھا اور وہ اس کے لئے موزوں امیدوار تھے۔ ہم نے کہا، ”چلیے، درخواست لکھتے ہیں۔ آپ اخبار ِ جہاں کے لئے اور ہم جنگ اخبار کے لئے۔ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ہماری یہ بات چیت کراچی یونیورسٹی کے شعبہ فنون میں کسی جگہ ہوئی تھی۔“ چناںچہ دونوں نے یہ درخواستیں لکھ کر اُن اخبارات کے انتظامی شعبے تک پہنچا دیں اور انتظار کرنے لگے۔ اخبار ِ جہاں کی اشاعت کی تاریخ ِ اجرا جنوری 1967تھی، اِس لئے شامی صاحب کا انتخاب جنوری میں ہوگیا لیکن ہمیں سب ایڈیٹرز کی اسامی خالی ہونے کا انتظار کرنا پڑا۔ ہمیں یوسف صدیقی صاحب کی اِس بات کا یقین تو تھا کہ ”جب جگہ ہوگی، آپ کو اطلاع دے دی جائے گی۔“ تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ خیال آنا بھی شروع ہوگیا تھا کہ ممکن ہے، انہوں نے مروت میں وعدہ تو کر لیا ہو پھر بعد میں بھول گئے ہوں۔ لیکن ہم ان کے پاس دوبارہ جا بھی نہیں سکتے تھے کیوں کہ چودھری صاحب نے اُن کے پاس بار بار جانے اور یاد دہانی کرانے سے منع کر رکھا تھا۔
وہ 16 اپریل 1967کی ایک خوش گوار شام تھی۔ ہم اپنے گھر کے پاس واقع واحد سڑک، نظامی روڈ پر کرتا پاجامہ اور ہوائی چپل پہنے، وقت گزاری کے لئے ٹہل رہے تھے کہ اچانک ایک رکشا ہمارے قریب آکر رکا، اُس میں سے ایک گرج دار آواز بلند ہوئی، ”او! لڑکے رک جاؤ اور چپ چاپ رکشے میں بیٹھ جاؤ” ہم گھبرا گئے اور پریشانی میں وہاں سے رفوچکر ہونے کا سوچ ہی رہے تھے کہ ہماری نظر اس میں بیٹھے شخص پر پڑی۔ ”ارے یہ تو ہمارے پڑوسی رجب علی شیخ ہیں۔“ وہ چودھری غلام محمد کے دفتر کے عملے میں شامل تھے۔ اُن کی آواز میں تھانے دار کا سا رعب و دبدبہ تھا۔ ہم چون و چرا کئے بغیر رکشے میں بیٹھ گئے۔ راستے بھر اُنہوں نے کوئی بات نہیں کی اور یہ بھی نہیں بتایا کہ کہاں جا رہے ہیں۔ آدھے گھنٹے کے بعد رجب علی شیخ نے رکشا ڈرائیور کو آئی آئی چندریگر روڈ پر روزنامہ جنگ کی نئی بلڈنگ کے سامنے رکنے کا حکم دیا۔”لڑکے! تم اترو اور جنگ کے دفتر میں یوسف صدیقی صاحب کے پاس جاؤ۔تمہیں اُنہوں ہی نے بلایا تھا۔“ یہ اُن کا ہمارے لئے اپنی رعب دار آواز میں نیا حکم تھا۔ اب پوری طرح بات ہماری سمجھ میں آگئی تھی کہ جنگ میں سب ایڈیٹر کی کوئی اسامی خالی ہوئی ہوگی اور یوسف صدیقی صاحب نے ہمیں بلانے کے لئے چودھری غلام محمد کو کہا ہو گا۔ چوں کہ چودھری صاحب کو یہ علم تھا کہ ہم اور رجب علی شیخ پڑوسی ہیں۔اس لئے چودھری صاحب نے انہیں ہمیں جنگ پہچانے کی ذمہ داری سونپی ہوگی۔
ہم جنگ کی موجودہ پرانی اور اس وقت کی نو تعمیر خوبصورت بلڈنگ کی سیڑھیاں چڑھ کر پہلی منزل پر یوسف صدیقی صاحب کے دفتر گئے۔ اُنہوں نے ہمیں دیکھتے ہی باہر آکر نیوز روم میں کھدر کے صاف ستھرے کرتے شلوار میں ملبوس ایک صحافی کے حوالے کرتے ہوئے کہا، ”ظفر صاحب! یہ عارف ہیں، کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ صحافت کے طالب علم ہیں۔ اِن کا تقرر اپرنٹس سب ایڈیٹر کی حیثیت سے ہوگیا ہے۔ اب یہ آپ کے ساتھ کام کریں گے۔ مَیں نے اِن کی صلاحیت کا امتحان لے لیا ہے۔“
ہمیں ظفر رضوی صاحب کے حوالے کر کے وہ وہاں موجود عملے کے دوسرے افراد سے خوش گپیوں میں مشغول ہوگئے۔ ہمیں رات تک معلوم ہوگیا کہ کراچی سے ”روزنامہ مشرق“ کا اجرا ہوا ہے جس سے روزنامہ جنگ کا مقابلہ ہے۔ لہٰذا، اس نئی صورت حال سے نمٹنے کے لئے جنگ کی انتظامیہ نے اخبار میں چار صفحات کا اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ صحافتی عملے میں چار اپرنٹس صحافی رکھنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ دوسرے اپرنٹس سب ایڈیٹر ز میں ہمارے کلاس فیلو قمر عباس جعفری، فیض اللہ بیگ اور ظہیر ریاض شامل تھے۔اس وقت صرف قمر عباس جعفری ہی بقید حیات ہیں اور وائس آف امریکہ میں سینئر براڈ کاسٹر ہیں۔اُس وقت ہمارے ساتھ نیوز روم میں ظفر بھائی کے علاوہ جو دوسرے صحافی موجود تھے اور بڑی توجہ سے خبریں بھی بنا رہے تھے۔ان میں مشہور صحافی اور شاعر استاد نازش حیدری، ارشاد بیگ چغتائی،خورشیدالاسلام زبیری، رشید بٹ اور عارف اسحاق اچھی طرح یاد ہیں وہ خبریں بنانے کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی آپس میں ہنسی مذاق بھی کرتے تھے۔
ظفر رضوی صاحب نے ہمیں ایک نظر دیکھتے ہوئے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور تھوڑی دیر بعد خبروں کا ایک پلندہ تھما دیا۔ یہ خبریں نیوز روم کے دو خبر رساں اداروAPP اور PPIکے ٹیلی پرنٹرز سے انگریزی میں مسلسل موصول ہو رہی تھیں۔ اُن کو اخباری زبان میں کریڈ کہا جاتا تھا۔ اُس زمانے میں آج کل کی طرح اردو میں بنی بنائی اور سرخیاں لگی خبریں جاری کرنے والی خبررساں ایجنسیاں نہیں تھیں۔ ہم نے پہلے اپنے سینئرز کی بنائی گئی خبروں کا ایک سرسری جائزہ لیا اور پھر اُن کو اردو کا جامہ پہنانا شروع کر دیا۔ جب ساری خبریں تیار ہوگئیں تو اُنہیں ظفر صاحب کو پیش کردیا۔ اُنہوں نے دو چار غلطیوں کی نشان دہی کی اور اُن میں سے پانچ چھ کو کتابت کے لئے بھیج دیا۔ شفٹ کا وقت ختم ہوتے ہی ہم خوشی خوشی پہلے جمعیت کے دفتر گئے، ناظم کراچی سید منور حسن اور ساتھیوں کو نئی ملازمت ملنے کی خوش خبری سنائی۔ پھر اپنے کوارٹر جا کر اپنے ساتھیوں محمد لطیف ورک اور احمد حَسن کو بھی نئی ملازمت ملنے کی خبر دی اور بتایا کہ ہم ”صحافی“ بن گئے ہیں۔ منہ میٹھا کرنے کا اہتمام بھی ہوا۔ دوسرے دن صبح نماز فجر کے بعد ہی جنگ اخبار کا انتظار کرنے لگے پھر قریب کے ایک اخباری اسٹال سے جنگ خرید کر لے آئے اور اپنی تیار کی ہوئی خبریں تلاش کیں تو یہ دیکھ کر خوشی کی انتہا نہ رہی کہ ہماری ترجمہ کی ہوئی چھ خبریں شائع ہوئی تھیں، جن میں دو، دو کالمی اور چار سنگل کالمی تھیں۔ جنگ میں پہلی ہی بار اپنی تیار کی ہوئی چھ خبریں دیکھ کر جو خوشی اور سُرور حاصل ہوا، اُس کا اثر کئی دنوں تک رہا۔ ہم نے اُس اخبار کو ایک یادگار کے طور پر محفوظ کر لیا۔ ہم خوشی کے مارے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ اِس خوشی میں آزاد کشمیر میں اپنے گاؤں اور شہر کُھوئی رَٹّہ کے دوستوں اور بزرگوں کو بھی شامل کرنے کا فیصلہ کیا اور اُنہیں الگ الگ خطوط لکھے۔
ہمارا جنگ میں ملازمت کا دوسرا دن تھا۔ پہلے ہم کالج گئے، کلاسیں ختم ہونے کے بعد آرام باغ میں چودھری غلام محمد کے دفتر میں ان کو خوش خبری دی۔ چودھری صاحب کو اس کا علم تو پہلے ہی تھا کیوںکہ اُنہوں ہی نے یوسف صدیقی صاحب کی اطلاع پر رجب علی شیخ کو ہمیں گھر سے جنگ کے دفتر لے جانے کو کہا تھا۔ ہمیں دیکھتے ہی چودھری صاحب نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے مبارک باد دی۔ وہ خوش کیوں نہ ہوتے کہ ہمیں صحافت کا پیشہ اختیار کرنے کا مشورہ دینے والے بھی تو وہی تھے۔ ایک طرح سے یہ اُن کے ایک اخباری پروجیکٹ کی کام یابی کی طرف اٹھتا، بڑھتا ہوا پہلا قدم تھا۔ وہ کراچی سے جماعت اسلامی کا ایک روزنامہ شروع کرنا چاہتے تھے۔ خوشی اُن کے چہرے سے عیاں تھی۔ وہ بار بار ہمیں مبارک باد دیتے اور پوچھتے کہ جنگ کے دفتر میں پہلا دن کیسے گزرا؟