امت رپورٹ :
آج تقریباً سارا یوکرین اس پر متفق ہے کہ اگر وہ اپنے ایٹمی ہتھیار ختم نہ کرتا تو نہ کریمیا پر قبضہ ہوتا، نہ روس اس پر مکمل جنگ مسلط کرسکتا اور نہ وائٹ ہاؤس میں اس کے صدر زیلینسکی کی توہین ہوتی۔
یوکرین کو سنہرے خواب دکھا کر ایٹمی ہتھیاروں سے محروم کرنے والے ہی آج اس کے دشمنِ جاں بنے ہوئے ہیں۔ اس سارے قضیے میں پاکستانیوں کے لیے بھی ایک سبق ہے۔ خاص طور پر ان پاکستانیوں کے لیے، جو دانستہ اور نادانستہ اپنے ہی ملک کی جڑیں کاٹنے والوں کے ہمنوا بنے ہوئے ہیں۔ ملک کی جڑیں کاٹنے کی کوشش کرنے والوں میں تحریک انصاف کا اوورسیز چیپٹر اور پاکستان میں بیٹھے ان کے سرپرست سر فہرست ہیں، جنہوں نے پاک فوج اور قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف مورچہ لگا رکھا ہے اور ان کا واحد مقصد ملک کو اس حد تک کمزور کرنا ہے کہ ہمارے نیوکلیئر پروگرام کے دشمن ممالک کا خواب خدا نخواستہ شرمندہ تعبیر ہو جائے۔
اڈیالہ جیل میں قید ایک خودساختہ انقلابی نے، جب وہ وزیراعظم تھا تو کہا تھا ’’مسئلہ کشمیر حل ہوجائے تو جوہری ہتھیاروں کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی‘‘۔ یہی دھوکہ قریباً آج سے اکتیس برس پہلے یوکرین نے کھایا تھا۔ جب امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے مل کر اسے یقین دلایا کہ اگر وہ اپنے ایٹمی ہتھیار تلف کردے تو وہ اس کے تحفظ کی ضمانت دیتے ہیں کہ روس کبھی اس پر حملہ آور نہیں ہوگا۔
روس نے بھی یقین دہانی کرائی کہ یوکرین اپنے تمام خدشات دل سے نکال دے۔ اس وقت یوکرین میں عمران خان جیسا ایک ’’دانش ور‘‘ سربراہ مملکت تھا جو اس جال میں آگیا۔ ایک معاہدہ ہوا اور یوکرین نے اپنے سارے ایٹمی ہتھیار تلف کردیئے۔ دسمبر انیس سو چورانوے کو ہونے والے اس معاہدے کو ’’بداپسٹ میمورنڈم‘‘ کا نام دیا گیا۔ کیونکہ یہ ہنگری کے دارالحکومت بداپسٹ میں کیا گیا تھا۔ اس کے بدلے میں امریکہ، برطانیہ، روس اور فرانس نے یوکرین کے تحفظ اور خود مختاری کی ضمانت دی تھی۔ اس وقت کے یوکرینی حکمرانوں نے سوچا ان جوہری ہتھیاروں کو رکھنے پر جو رقم خرچ ہوگی، اسے ملک کی ترقی اور خوشحالی پر لگانا چاہیے۔ یہی سب سے بڑی بھول تھی۔ ناعاقبت اندیش یوکرینی حکمرانوں کو احساس نہیں تھا کہ یہ ایٹمی ہتھیار ہی تو ان کے ملک کی بقا کی ضمانت ہیں۔ ملک ہی نہیں ہوگا تو پیسہ بچا کر کیا کریں گے۔
قصہ مختصر امریکہ، روس، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کی ایما پر یوکرین نے اپنے پاؤں پر خود کلہاڑا مارتے ہوئے اپنے جوہری ہتھیار اور بیلسٹک میزائل ختم کر ڈالے۔ یہ ایٹمی ہتھیاروں کا ایک بڑا ذخیرہ تھا، کیونکہ سوویت یونین کے جوہری ذخائر کا ایک تہائی حصہ یوکرینی زمین پر واقع تھا۔ اگست انیس سو اکیانوے میں یوکرین آزاد ہوا تو سوویت یونین کے یہ سارے جوہری ذخائر اس کے حصے میں آگئے۔ ان جوہری ہتھیاروں میں متعدد ٹیکٹیکل وار ہیڈ بھی شامل تھے، جو محدود پیمانے پر تباہی پھیلانے والے چھوٹے ایٹمی ہتھیار ہوتے ہیں۔
امریکہ اور بھارت کو پاکستان کے اسی نوعیت کے ٹیکٹیکل ہتھیاروں سے تکلیف ہے۔ لیکن پاکستان، یوکرین نہیں، جس نے اپنے یہ ٹیکٹیکل ہتھیار بھی تلف کر ڈالے جو آج روس کے ساتھ جنگ میں اس کا سب سے بڑا دفاع بن سکتے تھے۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، یوکرین اس ’’ضعف ‘‘کا شکار ہو گیا جس کی سزا صرف ’’مرگِ مفاجات ‘‘ہے۔ پچھلے اکتیس برس کے دوران کوئی ایک دن شاذونادر یوکرین نے سکھ کا کاٹا ہو۔ روس نے کبھی وکٹر ینوکووچ کی شکل میں اپنا کٹھ پُتلی حکمران یوکرین پر مسلط کیا تو کبھی خانہ جنگی کو ہوا دی، جس میں چودہ ہزار افراد لقمہ اجل بنے۔ آخر کار دو ہزار چودہ میں روس نے یوکرین سے کریمیا چھین لیا۔ یہ قبضہ آج تک برقرار ہے۔
اسٹرٹیجک اہمیت کے حامل جزیرہ نما کریمیا میں روسی النسل افراد کی اکثریت ہے۔ ایک ریفرنڈم کو جواز بنا کر روس نے کریمیا کا اپنے ساتھ الحاق کیا۔ تاہم یوکرین کو تحفظ کی ضمانت دینے والا امریکہ، برطانیہ اور یورپی ممالک خاموش تماشائی بنے رہے۔ حتیٰ کہ فروری دو ہزار بائیس کو روس نے یوکرین کے دارالحکومت کیف پر حملہ کرکے ایک مکمل جنگ چھیڑ دی۔ یہ جنگ چوتھے برس میں داخل ہوچکی ہے اور اب تک دونوں اطراف کے ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
پچھلے تین برس سے امریکہ، یوکرین کو اربوں ڈالر اور فوجی ساز و سامان دے رہا تھا۔ لیکن ٹرمپ کے صدر بن جانے کے بعد امریکہ نے آنکھیں بدل لی ہیں۔ کاروباری مزاج کے مالک ٹرمپ اب دھونس کے ساتھ یوکرین کو جنگ بندی پر مجبور کر رہے ہیں اور ساتھ ہی معدنیات کا معاہدہ کرنے کے لیے یوکرینی صدر زیلینسکی پر دباؤ بڑھا رہے ہیں تاکہ اربوں ڈالر کما سکیں۔ وائٹ ہاؤس میں ہونے والی تذلیل کے باوجود زیلینسکی اس معاہدے پر دستخط کے لیے تیار ہیں کہ ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ برطانیہ اور یورپ بظاہر اب بھی زیلینسکی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ لیکن ان میں اتنی سکت نہیں کہ وہ امریکہ کی مدد کے بغیر یوکرین کو روس سے بچا سکیں۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد برطانیہ اور بہت سے یورپی ممالک نے اپنی افواج میں انتہائی کمی کردی تھی۔ اگر برطانیہ کی مثال لی جائے تو اس کے پاس اس وقت صرف ستر ہزار فوجی ہیں۔ اس سے دو گنا تو یوکرین جنگ میں فریقین کی ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔
یوکرین انیس سو بیس سے انیس سو اکیانوے تک سوویت یونین کا حصہ رہا ہے۔ اب روس پھر یوکرین کو اپنے زیر نگیں کرنا چاہتا ہے اور یوکرین اس منحوس گھڑی کو رو رہا ہے، جب ’’ بڈاپسٹ ایگریمنٹ‘‘ کرکے اس نے اپنی خود مختاری داؤ پر لگا دی تھی ۔