عبداللہ بلوچ :
پاکستان کے شاہینوں نے عید کا مزہ بھی کرکرا کردیا۔ امام الحق نے سوشل میڈیا پر عید کے پیغام میں دعویٰ کیا تھا کہ ان کی ٹیم اگلے دونوں میچ جیت کر بھرپور انداز میں جیت کر سیریز میں کم بیک کرے گی۔ ’’کنگ‘‘ بابر اور پاکستانی بریڈ مین رضوان نے بھی ٹیم کی سیریز میں شاندار واپسی کی نوید سنائی تھی۔ لیکن ہوا یہ کہ پاکستانی ٹیم کو دوسرے میچ میں بدترین ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ یوں رواں برس کیویز کے ہاتھوں شاہینوں کی ناکامیوں کی تعداد نو ہوچکی ہے۔
ماہرین کرکٹ نے اس پے درپے رسوائی کا ذمہ دار مستند اسپنرز کی غیر موجودگی، روایتی فاسٹ بالرز کی قلت اور گھسے پٹے بلے بازوں کی ناقص کارکردگی کو قرار دیا ہے۔ کرکٹ اینالسٹ کا ماننا ہے کہ اب پاکستان کرکٹ کا معیار بنگلہ دیش اور افغانستان سے بھی کم ہوکر اسکاٹ لینڈ، آئرلینڈ، امارات اور یو ایس اے کی ٹیم کے برابر ہوگیا ہے۔
سابق کپتان راشد لطیف نے پاکستانی کھلاڑیوں کی حالیہ پرفارمنس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے عاقب جاوید کی سلیکشن میں تیار کی جانے والی نئی ٹیم کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے ’’رضوان بطور کپتان ناکام ہوچکے۔ ان کا میدان میں کوئی خاص کردار نہیں نظر آتا۔ بابر اعظم اپنی فارم بھول چکے ہیں۔ انہیں زبردستی ٹیم کا حصہ بناکر دیگر باصلاحیت کھلاڑیوں کے ساتھ ناانصافی کی جارہی ہے۔ ان کی جگہ صاحبزادہ فرحان کو موقع دینا چاہیے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ کیوی ٹیم کی دوسرے درجے کے کھلاڑی بھی پاکستانی بالرز کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔ اگر نیوزی لینڈ اپنی فل اسٹرینتھ اسکواڈ کے ساتھ میدان میں آتا تو قومی ٹیم کا کیا حشر ہوتا‘‘۔
دوسری جانب سابق کرکٹر اور کوچ باسط علی نے پاکستانی ٹیم کو شدید نتقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں کہا کہ بابر اعظم چیمپئنز ٹرافی میں اوپنر کھیلے۔ اب تیسرے نمبر پر کیوں کھیل رہے ہیں؟ جو لوگ کرکٹ کے پروفیسر بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں جوتے مارنے چاہئیں۔ ٹیم کی موجودہ حالت کے ذمہ دار وہی ہے جس نے بابر کو اوپنر اور رضوان کو کپتان بنایا۔ پاکستانی ٹیم فرنچائز ٹیم بن چکی ہے۔ یہ ترجیحات پر مبنی ٹیم ہے۔
دوسری جانب پاکستان کرکٹ کے فینز بھی کھلاڑیوں کی پرفارمنس سے بدظن دکھائی دے رہے ہیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں۔ ایکس پر ایک صارف نے طنز کرتے ہوئے لکھا ’’پاکستان ٹیم نے آج تو کمال کر دیا۔ اتنی بری پرفارمنس۔ دل چاہتا ہے کچھ اور ہی کر لیں!‘‘۔ احسن نامی صارف لکھتا ہے ’’ہارنا مسئلہ نہیں۔ لیکن کم از کم کھیل کر تو ہاریں۔ تھوڑا تو لڑیں‘‘۔
ایک اور صارف کا کہنا تھا ’مزید شرمندگی سے بچنے کیلئے پاکستان ٹیم پر پابندی عائد کر دینی چاہیے‘‘۔ زرق افضل نامی صارف کا کہنا تھا ’’پاکستانی ٹیم کا شمار اب چھوٹی ٹیموں میں کرنا چاہیے‘‘۔ اسد خان نامی صارف نے لکھا ’میں معافی چاہتا ہوں لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ! آپ لوگ جگ ہنسائی کا باعث بن رہے ہو۔ اگر حارث رؤف جیسے کھلاڑی سوچتے ہیں کہ ہم ان پر تنقید کرنے کے منتظر ہیں تو وہ جیت کر کیوں نہیں دکھانا شروع کر دیتے؟‘‘۔
شاہ زیب علی نامی صارف لکھتے ہیں پاکستان کے ٹاپ آرڈر کو فہیم اشرف اور نسیم شاہ کی بیٹنگ سے سیکھنے کی ضرورت ہے‘‘۔ دریں اثنا پاکستان کرکٹ ٹیم کو نیوزی لینڈ سے ٹی ٹوئنٹی سیریز کے بعد ون ڈے سیریز میں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑ گیا ہے۔ یوں نیوزی لینڈ نے عالمی درجہ بندی میں پاکستان کی تیسری پوزیشن چھین لی ہے۔ آخری میچ میں شکست ہوئی تو جنوبی افریقہ پاکستان کی چوتھی پوزیشن چھین لے گا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ نیوزی لینڈ نے دوسرے او ڈی آئی میں ٹیم میں مزید ناتجربہ کار کھلاڑی شامل کیے اور پہلے میچ میں سنچری داغنے والے مارک چیپ مین کو آرام کا موقع دیا۔ اس کے باوجود پاکستانی بالرز کیوی بلے بازوں کو قابو کرنے میں ناکام رہے۔ سب سے زیادہ مار پاکستان کے اسپیڈ اسٹار حارث رئوف اور وسیم جونئیر نے کھائی۔ جنہوں نے اپنے دس اوورز کے اسپیل میں ستر سے زائد رنز لیگ کیے۔
ساتویں نمبر پر آنے والے کیوی بلے باز مچل نے برق رفتار ناقابل شکست 99 رنز کی اننگ تراشی۔ جبکہ پاکستانی نژاد بلے باز محمد عباس نے 41 رنز کی اننگ کھیلی۔ جس کی بدولت کیوی ٹیم ہملٹن کی فاسٹ کنڈیشن میں آٹھ وکٹوں پر293 کا ٹارگٹ دینے میں کامیاب رہی۔ جس کے تعاقب میں پاکستانی کے ابتدائی پانچ بلے باز صرف 32 رنز جوڑ کر چلتے بنے۔ بابر اعظم اور عبداللہ شفیق ایک ایک رن، امام الحق تین رن، رضوان پانچ رن، سلمان علی آغا نو اور طیب طاہر تیرہ رن بنا سکے۔ البتہ فہیم اشرف اور نسیم شاہ نے شاندار شراکت قائم کرکے ٹیم کو مکمل تباہی سے بچایا۔
دونوں نے ففٹی اسکور کرکے ٹیم اسکور 208 رنز تک پہنچانے میں کامیاب رہے۔ تاہم اس دوران پوری ٹیم پویلین لوٹ گئی۔ یوں نیوزی لینڈ یہ میچ 84 رنز سے جیتنے میں کامیاب رہا۔ نیوزی لینڈ کی جانب سے بین سیرز نے تباہ کن بالنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے پانچ شاہینوں کا شکار کیا۔