برطانیہ سرفہرست- دوسرے نمبر پر امریکہ ہے- ہالینڈ اور سوئٹزرلینڈ بھی شامل- پاناما اور پینڈورا پیپرز منظر عام پر آنے سے ساکھ متاثر ہوئی۔رپورٹ

دنیا کے سات ممالک ٹیکس چوروں کی جنت بن گئے

امت رپورٹ:
پاناما لیکس کے بعد پینڈورا پیپرز کا دھماکہ ہوچکا ہے۔ جن میں دنیا بھرکے ٹیکس چور دولت مندوں کے ساتھ سات سو پاکستانیوں کے نام بھی شامل ہیں۔ جنہوں نے اپنے متعلقہ ممالک میں ٹیکس سے بچنے کے لئے آف شور کمپنیاں بناکر سرمائے کو محفوظ کیا۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون سے ممالک ہیں۔ جو دنیا کی مختلف کارپوریشنوں اور افراد کو اپنے ملک میں ٹیکس سے بچنے کے راستے دکھاتے ہیں۔ ان ممالک کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ ان کے ملک میں آف شور کمپنیوں کی شکل میں سرمایہ کاری کرنے والے کا دھن سفید ہے یا کالا ہے۔ اس خفیہ مالی کاروبار کو تحفظ دینے کے لئے ان ممالک نے قانونی غلاف چڑھا رکھا ہے۔ ان میں دنیا کے سات ممالکشامل ہیں۔ جن میں برطانیہ سرفہرست اور امریکہ دوسرے نمبر پر ہے۔
برٹش ورجن آئی لینڈ کو دنیا کی سب سے بڑی ٹیکس پناہ گاہ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس جزیرے کی قدر اس کی معیشت سے پانچ ہزار گنا زیادہ ہے۔ اور یہ سب آف شور کمپنیوں کی مرہون منت ہے۔ جو دنیا بھر کے ٹیکس چوروں اور کالا دھندا کرنے والوں کو تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ برٹش ورجن آئی لینڈ، کیربیین میں ایک جزیرے کا حصہ ہے۔ اور برطانوی ملکیت کے بیرون ملک واقع علاقے میں شامل ہے۔ برٹش ورجن آئی لینڈ، آف شور اکائونٹس پر کوئی ٹیکس نہیں لگاتا۔ اور اس کا دیگر ممالک کے ساتھ کوئی ٹیکس معاہدہ نہیں ہے۔ اسی طرح یہ بینک اکائونٹس مالکان کے مالی رازداری کے بارے میں بھی سختی سے عمل کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے سب سے زیادہ ٹیکس چوراور دولت مند افراد اپنا سرمایہ محفوظ کرنے کے لیے برٹش ورجن آئی لینڈ کا رخ کرتے ہیں۔ برٹش ورجن آئی لینڈ میں شامل آف شور بینکنگ صارفین اور آف شور کمپنیوں کے لیے ایک فائدہ یہ ہے کہ کوئی ایکسچینج کنٹرول نہیں ۔ اس سے مالیاتی رازداری کی حفاظت کرتے ہوئے تجارت اور سرمایہ کاری کے خفیہ فنڈز کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا آسان ہوجاتا ہے۔
اسی طرح کیمن جزائریا آئی لینڈ کی آف شور کمپنیاں دنیا میں سب سے زیادہ موثر ٹیکس پناہ گاہیں تصور کی جاتی ہیں۔ کیمن آئی لینڈبھی ایک برطانوی سمندر پار علاقہ ہے۔ اور تین جزائر پر مشتمل ہے۔ کیمن آئی لینڈ میں کوئی بھی کارپوریٹ ٹیکس نہیں ہے۔ کارپوریشنوں کے لئے اس رعایت سے فائدہ اٹھانے کے لئے یہ بھی ایک بڑی کشش ہے۔ کیمن جزائر بہت سی کارپوریشنوں کو بڑھنے اور خاطر خواہ ٹیکس سے بچانے میں بھی بہت مدد کرتے ہیں۔ ایک اور بڑا فائدہ ان جزائر میں سود کی کمی کا ہے۔ جو سرمایہ کاری پر ادا کرنا پڑتا ہے۔
ٹیکس چوروں اور دولت مندوں کے محفوظ اثاثوں کا ایک اور بڑا مرکز برمودا آئی لینڈ ہے۔ یہ بھی ایک برطانوی جزیرے کا علاقہ ہے۔ برمودا میں ٹیکس کی شرح صفر ہے۔ برمودا بھی اپنے آف شور کلائنٹس کو مکمل رازداری فراہم کرتا ہے۔
دوسری جانب پاناما بھی دنیا بھر کے ٹیکس چوروں کے لئے بڑی کشش کا باعث ہے۔ پاناما میں علاقائی ٹیکس کا نظام ہے۔ جس میں ملک کے اندر کمائی گئی آمدنی پر ٹیکس لگایا جاتا ہے۔ لیکن دوسری جگہ سے حاصل ہونے والی آمدنی پر ٹیکس کی چھوٹ ہے۔ پاناما میں قائم ایک فرم دنیا میں کہیں بھی اپنے اثاثے رکھ سکتی ہے۔ یہ قانون پاناما انٹرپرائزز کی رازداری کی بھی حفاظت کرتا ہے۔ لہٰذا کلائنٹ کو یقین دلایا جاتا ہے کہ پاناما میں اس کے کاروباری معاملات اور مالی اسٹیٹ منٹس کو خفیہ رکھا جائے گا۔ تاہم دو ہزار سولہ میں پاناما پیپرز اور اب پینڈورا پیپرز کا اسکینڈل جنگل کی آگ کی طرح پھیلنے کے بعد یہ خدشات پیدا ہوگئے ہیں کہ یہ ٹیکس پناہ گاہیں آگے چل کر زیادہ محفوظ نہیں رہیں گی۔ یہاں یہ بتاتے چلیں کہ پاناما، وسطی اور جنوبی امریکہ کو جوڑنے والا ایک ملک ہے۔
اسی طرح لگسمبرگ بھی ٹیکس ہیون کا ایک مرکز ہے۔ یورپ کا یہ چھوٹا سا علاقہ دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ جس کا زیادہ تر انحصار اس کے مالیاتی شعبے اور آف شور کمپنیوں پر ہے۔ جو کہ اس کی جی ڈی پی کا پینتیس فیصد سے زیادہ بنتا ہے۔ لگسمبرگ کا مالیاتی نظام، بین الاقوامی کارپوریشنوں یا امیر ترین فرد کو ٹیکس کی خامیوں سے فائدہ اٹھانے کی پوری اجازت دیتا ہے۔ رازداری لکسمبرگ کی پالیسی کا مرکزی اصول ہے۔ فنڈز یا آف شور اکائونٹ کا مالک ہی اپنے مالی معاملات کے بارے میں ذاتی تفصیلات شیئر کرنے پر دستخط کر سکتا ہے۔ لکسمبرگ میں ہر چیز کو تالے اور چابی کے نیچے رکھا جاتا ہے۔ اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ ان کا کلائنٹ یا موکل خود کو محفوظ محسوس کرے۔ یہ آف شور بینک اکائونٹس میں سود بھی نہیں لگاتا ہے۔
ہالینڈ بھی ٹیکس چور کارپوریشنوں اور افراد کے لئے ایک محفوظ مقام ہے۔ اگرچہ یہ دیگر ٹیکس پناہ گاہوں کی طرح کھلے عام ٹیکس فری نہیں۔ لیکن دیگر یورپی ممالک کے مقابلے میں ہالینڈ کافی کم ٹیکس کی شرح پیش کرتا ہے۔ ہالینڈ کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس کا ملک ٹیکس کی پناہ گاہ نہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ گوگل جیسی بڑی کمپنیاں بھی اپنے ماتحت ادارے کھول کر ہالینڈ کی ٹیکس پناہ گاہوں کا فائدہ اٹھارہی ہیں۔
دنیا میں ٹیکس چوروں اور کالے دھندے سے پیسہ کمانے والوں کے سرمائے کو محفوظ رکھنے والے ممالک میں سوئٹزر لینڈ شامل ہے۔ مشہور سیاحتی مقامات میں سے ایک ہونے کے ساتھ سوئٹزر لینڈ اپنے مالیاتی اداروں کی مضبوطی اور کامیابی کے لئے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ ملک آف شور ٹیکس پناہ گاہوں کے حوالے سے اپنی مستقل قابل اعتماد رازداری کے لئے جانا جاتا ہے۔ سوئٹزر لینڈ کی بینکنگ سروسز کو قانونی حیثیت حاصل ہے۔ بینکرز کو اپنے کلائنٹس کے بارے میں کسی بھی قسم کی معلومات دینے کی سخت ممانعت ہے۔ یعنی صارفین کے مالی اثاثوں کے بارے میں سخت رازداری برتی جاتی ہے۔
دلچسپ امر ہے کہ ٹیکس پناہ گاہوں کے طور پر معروف ان ممالک میں دنیا بھر کے دولتمندوں کے ساڑھے چھ کھرب ڈالرپڑے ہیں۔