پولیس حکام اپنے بل پر ڈکیت گروپوں کا قلع قمع کرنے سے معذوری ظاہر کر رہے ہیں، فائل فوٹو
پولیس حکام اپنے بل پر ڈکیت گروپوں کا قلع قمع کرنے سے معذوری ظاہر کر رہے ہیں، فائل فوٹو

کچے میں آپریشن کیلیے آرمی کے کلیدی کردار پر اتفاق

نمائندہ امت:

شمالی سندھ میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے خصوصاً کچے کے علاقے میں ڈاکوئوں کے مختلف گینگز کا خاتمہ کرنے کے لئے صوبائی وزیر داخلہ اور آئی جی سندھ پولیس نے شمالی سندھ میں کیمپ قائم کرلیا ہے۔ ڈاکوئوں کے پاس پولیس سے بھی زیادہ جدید اسلحہ ہونے کے ساتھ انہیں قبائلی سرداروں کی پشت پناہی اور خود پولیس کے اندر ان کے مخبر موجود ہونے کے باعث اب تک ڈاکوئوں کے خلاف موثر کارروائی نہیں ہوسکی۔

اس صورتحال میں پولیس حکام ڈکیت گروپوں کا خاتمہ تنہا کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔ سندھ حکومت اس سلسلے میں عسکری قیادت سے جلد مدد طلب کرے گی۔ جس کا صوبائی حکومت کو مثبت جواب ملنے کے قوی امکانات ہیں۔ ضلع گھوٹکی، ضلع کشمور اور ضلع شکارپور کے کچے کے علاقے میں ڈاکو راج پر کنٹرول نہ ہونے کے باعث ڈاکو راج کا دائرہ ضلع جیکب آباد، خیرپور، سکھر اور قمبر شہداد کوٹ تک بڑھ گیا ہے۔ خود تجربہ کار کئی پولیس افسران نے اب یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ڈاکوئوں کے خلاف بڑے آپریشن کے لئے آرمی کے جوانوں کی مدد ضروری ہے۔ ڈاکوئوں کا فوری طور پر خاتمہ نہیں کیا گیا تو آئندہ ایک دو برس کے اندر صورتحال زیادہ ابتر ہوجائے گی۔

ڈاکوئوں کے خاتمے کے لئے حکومت سندھ نے ایک بار پھر پنجاب اور بلوچستان حکومت کے ساتھ مل کر بین الصوبائی سطح کے آپریشن کی حکمت عملی بھی تیار کرلی ہے۔ جبکہ ڈاکوئوں کی سپورٹ کرنے والے متعلقہ قبائل کے سرداروں سے بھی رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ متعلقہ قبائل کے جو سردار حکومت سے تعاون نہیں کریں گے ان کے خلاف بھی ایکشن لیا جائے گا۔

ضلع گھوٹکی، شکارپور اور ضلع کشمور کے کچے کے علاقوں میں ڈاکوئوں کے خلاف کئے گئے آپریشن مسلسل ناکام ہونے کے بعد اب ڈاکو راج کا دائرہ صرف کچے تک محدود نہیں رہا بلکہ پکے کے علاقے تک بھی پھیل گیا ہے۔ ضلع جیکب آباد جس کو کچے کا علاقہ نہیں لگتا لیکن اب مذکورہ ضلع میں بھی دن دہاڑے اغوا برائے تاوان ، ڈکیتیوں کی وارداتوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اور یہی صورتحال ضلع قمبر شہداد کوٹ کی بھی ہے۔ اور اب ضلع سکھر اور ضلع خیرپور بھی بدامنی کی لپیٹ میں آگیا ہے۔

نئی صوبائی حکومت کے قیام کے بعد وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی جانب سے کئے گئے اعلان کے مطابق صوبائی وزیر داخلہ ضیا الحسن لنجار اور آئی جی سندھ پولیس غلام نبی میمن نے شمالی سندھ میں کیمپ قائم کرلیا ہے۔ گزشتہ روز انہوں نے ضلع کشمور، ضلع شکارپور اور سکھر میں اعلیٰ سطح کی میٹنگز کرکے صورتحال کا جائزہ لیا اور کل آئی جی سندھ پولیس ضلع گھوٹکی پہنچیں گے۔ ایک ہفتے کے اندر ان کا ضلع گھوٹکی کا یہ دوسرا دورہ ہوگا۔

ضلع کشمور اور شکارپور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی وزیر داخلہ ضیا الحسن لنجار نے خود یہ اعتراف کیا کہ ڈاکوئوں کے پاس پولیس سے زیادہ جدید اسلحہ موجود ہے۔ ڈاکوئوں کا مقابلہ کرنے کے لئے پولیس کو بھی جدید اسلحہ فراہم کرنا ضروری ہے جس کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ اور آپریشن کے ساتھ ڈاکوئوں کو جدید اسلحے کی سپلائی کو روکنے کے لئے بھی اقدامات کئے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکوئوں کی مضبوط ہونے کا ایک سبب مختلف قبائل کے درمیان تصادم بھی ہے۔

متعلقہ قبائل کے سردار اپنے مخالفین پر حاوی ہونے کے لئے ڈاکوئوں کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ اس لئے امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے مختلف قبائل کے درمیان تصادم کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔ اور اس سلسلے میں متعلقہ تمام قبائل کے سرداروں سے رابطے کئے جارہے ہیں کہ وہ حکومت کا ساتھ دیں۔ انہوں نے کہا کہ جو قبائل یا سردار حکومت کا ساتھ نہیں دیں گے اب ان کے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔

دریں اثنا ذرائع کا کہنا ہے کہ کچے کے علاقے میں آپریشن کا تجربہ رکھنے والے کئی پولیس افسران و اہلکار برملا یہ بات کر رہے ہیں کہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ کچے کے ڈاکوئوں کے پاس اینٹی ایئر کرافٹ گن اور راکٹ لانچرز سمیت اس سے بھی جدید اسلحہ موجود ہے۔ جس سے بکتر بند گاڑیاں بھی تباہ ہوجاتی ہیں۔ اس صورتحال میں پولیس کو جدید اسلحہ فراہم کرنے کے ساتھ جب تک آرمی کے جوانوں کی مدد حاصل نہیں کی جائے گی، تب تک ڈاکوئوں کے خلاف موثر کارروائی کے امکانات کم ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پہلے ایک دور ہوتا تھا جب کچے کے علاقے میں پولیس اور دیگر اداروں کے مخبروں کا جال بچھایا ہوتا تھا لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ کئی پولیس افسران و اہلکار خوف میں مبتلا ہونے کے علاوہ لالچ میں آکر بھی ڈاکوئوں کے مخبر اور سہولت کار بن گئے ہیں۔ بعض ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں کہ ڈاکوئوں سے ملی بھگت میں شامل کئی پولیس اہلکار مختلف افراد کو پکڑ کر ڈاکوئوں کے پاس پہنچادیتے ہیں۔ ایسے واقعات خصوصاً ضلع کشمور میں زیادہ پیش آئے ہیں۔ اور اس گناہ کے مرتکب کئی پولیس اہلکاروں کو برطرف بھی کیا جاچکا ہے۔

ڈاکوئوں کے حوصلے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ وہ برملا سوشل میڈیا پر پولیس، صحافیوں کے ساتھ دیگر اداروں کو بھی للکار رہے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق اب تک ضلع کشمور، ضلع گھوٹکی اور ضلع شکارپور کے ڈاکو تقریباً ساڑھے سات سو افراد کو اغوا کرکے تاوان حاصل کرچکے ہیں۔ جن میں صرف سندھ سے تعلق رکھنے والے نہیں بلکہ خیبر پختون، پنجاب ، گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل ہیں۔ ڈاکو شکار پھنسانے کے لئے نہ صرف خود عورتوں کی آواز میں فون پر مختلف افراد کو پھنساتے ہیں بلکہ مختلف زبانیں بولنے والی عورتیں بھی ان کے گینگ میں شامل ہیں۔

خصوصاً دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے جو افراد ان کے چنگل میں پھنستے ہیں اس کے پیچھے لالچ کا عنصر زیادہ ہے۔سوشل میڈیا کے ذریعے وہ ٹریکٹر ، مختلف گاڑیاں، کرین اور اس طرح کی دیگر اشیا سستی فروخت کرنے کا جھانسہ دے کر انہیں اپنے علاقوں میں بلاکر قید کرکے رکھ لیتے ہیں۔ پھر ان سے تاوان مانگا جاتا ہے۔

ایک افسوس ناک بات یہ بھی ہے کہ امن و امان کی صورتحال خراب ہونے کے باعث کچے کے علاقے میں بیشتر اسکول بند ہوگئے ہیں۔ کیونکہ ایسی صورتحال میں اساتذہ کے لئے اسکول پہنچنا ممکن نہیں۔ جس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ ایک استاد جب اپنے ساتھ بندوق لے کر بچوں کو پڑھانے جاتا تھا، انہیں بھی قتل کیا گیا۔ اس واقعہ کے بعد کچے کے علاقے کے بیشتر دیگر اسکول بھی بند ہوگئے ہیں جس سے بچوں کا مستقبل بھی تباہ ہورہا ہے۔

پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈاکوئوں کی محفوظ ترین آماجگاہیں ضلع گھوٹکی اور ضلع کشمور میں ہیں۔ کیونکہ ان اضلاع سے پنجاب اور صوبہ بلوچستان کا بارڈر بھی لگتا ہے جس کے باعث ان کے خلاف جب گھیرا تنگ ہوتا ہے تو وہ پنجاب اور بلوچستان کے علاقے میں چلے جاتے ہیں۔ اور ڈاکوئوں کے پاس اپنی کشتیاں اور لانچز بھی ہیں جس کے باعث دریائے سندھ کے ذریعے ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں نقل مکانی کرنے میں انہیں آسانی ہوتی ہے۔

مذکورہ ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ دور حکومت میں بھی ڈاکوئوں کے خلاف بین الصوبائی سطح کا آپریشن شروع کیا گیا تھا جس کے مثبت نتائج سامنے آئے تھے لیکن بعد ازاں یہ سلسلہ رک گیا اس لئے ایک بار پھر ڈاکوئوں کے خلاف بین الصوبائی سطح کے آپریشن کی تیاری کی جارہی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت اس سلسلے میں عسکری قیادت سے جلد مدد طلب کرے گی۔ جس کا صوبائی حکومت کو مثبت جواب ملنے کے قوی امکانات ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔