پی ٹی آئی رہنمائوں پر صدیوں پرانے بازاروں کی قیمتی جائیدادیں ہتھیانے کی سازش کا الزام، فائل فوٹو
 پی ٹی آئی رہنمائوں پر صدیوں پرانے بازاروں کی قیمتی جائیدادیں ہتھیانے کی سازش کا الزام، فائل فوٹو

پشاور کے تاجر گنڈاپور حکومت سے نالاں

محمد قاسم:
صوبائی حکومت اور ضلعی انتظامیہ نے خیبرپختون کی پہلی سبزی منڈی، مچھلی بازار اور قدیم لوہاری (ریتی) بازار کو پشاور شہر سے باہر منتقل کرنے پر غور شروع کر دیا ہے۔

تاجروں نے بازار خالی کرنے سے انکار کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ پی ٹی آئی پشاور کے رہنما اور سابق گورنر حاجی غلام علی کے فرزند میئر پشاور حاجی زبیر علی کی قیمتی جائیدادوں پر نظر ہے۔

واضح رہے کہ پشاور شہر کے وسط میں پرانی سبزی منڈی کی اکثر دکانیں ہندوئوں کی تھیں اور ان کی طرز کی تعمیر خاص تھی۔ پاکستان قائم ہونے کے بعد ہندو یہ دکانیں اسی حالت میں چھوڑ کر چلے گئے اور پاکستانی تاجروں نے بھی ان تاریخی دکانوں کو ویسے ہی رہنے دیا۔ یہاں صدیوں سے موجود پیپل کے درخت کاٹے گئے اور نہ دکانوں کو دوبارہ تعمیر کرایا گیا۔ جس کی وجہ سے غیر ملکی و مقامی سیاح اس سبزی منڈی کا رخ کرتے ہیں اور ہندو طرز تعمیر کی دکانوں اور عمارتوں کا نظارہ کرتے ہیں۔

پی ٹی آئی حکومت نے 2013ء میں اس وقت اس منڈی کو منتقل کرنے کی کوشش کی تھی۔ تاہم عمران خان اور اس وقت جماعت اسلامی سے وابستہ وزیر بلدیات عنایت اللہ نے نہ صرف اس کی مخالفت کی تھی۔ بلکہ تجاوزات ہٹا کر اس بازار کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس وقت یہ بات مشہور ہوئی تھی کہ عمران خان نے کہا تھا کہ عنایت اللہ اس منڈی کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سڑک بنائیں تاکہ پرانی منڈی بحال ہو جائے۔ اب پی ٹی آئی اور میئر نے ان قیمتی جائیدادوں پر نظریں گاڑ لی ہیں۔ تاکہ یہاں پر خواتین کی مارکیٹیں بنائی جائیں۔

اس امر کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ عید سے ایک روز قبل مینا بازار کے گرفتار صدر کو پی ٹی آئی کے صوبائی وزیر تعلیم مینا خان آفریدی پولیس سے چھڑا کر لائے تھے جو ان بازاروں سے پی ٹی آئی کیلئے فنڈ جمع کرتے ہیں۔ اب پی ٹی آئی کے وزرا اور رہنما ان قیمتی جائیدادوں کو ہتھیانے کیلئے یہ منصوبے بنا رہے ہیں۔

ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ پرانی سبزی منڈی کے ساتھ چوک یادگار سے متصل واقع مچھلی بازار کو بھی ختم کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔ یہ بازار انگریز دور سے قبل یہاں قائم ہوا تھا اور گزشتہ 200 برس سے موجود ہے۔ اس بازار کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں کراچی کی سمندری مچھلیاں مل جاتی ہیں۔ کیونکہ 10 سال قبل فارمی مچھلی کا رواج نہیں تھا۔

صوبہ بھر میں بڑے ہوٹلز، شادی گھروں، بڑے گھرانوں اور بازار میں مچھلی فروشوں کا سارا انحصار اس بازار پر ہوتا تھا۔ اب چونکہ فارمی مچھلی ہر جگہ دستیاب ہے اور یہ بازار خواتین کے مینا بازار کے بالکل متصل واقع ہے۔ لہذا پرانی قیمتی جائیدادوں پر پی ٹی آئی رہنمائوں کی نظر ہے۔ اس طرح 150 سال سے قائم ریتی بازار ہے۔ جہاں لوہے کی صنعت سے منسلک تمام سامان تیار ہوتا ہے۔ جو افغانستان، وسطی ایشیا، چین اور روس تک جاتا ہے۔ لیکن اسے بازار کو بھی یہاں سے منتقل کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔

حکومتی ذرائع کے مطابق پشاور میں غیر قانونی سبزی منڈی چوک یادگار کے قریب ہونے سے ٹریفک کا نظام متاثر ہو رہا ہے۔ جبکہ ریتی بازار میں بھی تجاوزات کی بھرمار ہے۔ جس سے گاڑیوں کا چلانا مشکل ہے۔ اس لیے مچھلی منڈی کے ساتھ ساتھ پرانی سبزی منڈی اور ریتی بازار کو بھی شہر سے باہر منتقل کرنے کی تجویز ہے۔ اس سلسلے میں متعلق اداروں سے رپورٹ طلب کی گئی ہے۔ جن کی روشنی میں ان بازاروں کو باہر منتقل کرنے کی منصوبہ بندی کی جائے گی۔

تینوں بازاروں کے تاجروں شمس، احمد خان، روحیل اور دیگر نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ حکومت پہلے تو یہ ثابت کرے کہ ان بازاروں سے کوئی ٹریفک گزرتی ہے۔ ان کے مطابق اکثر جائیدادیں ہندوئوں نے چھوڑی ہیں۔ جو نسل در نسل منتقل ہو رہی ہیں۔ ان دکانوں کے کاغذات موجود نہیں۔ پی ٹی آئی کی گزشتہ دس برس سے اس پر نظر ہے۔

جبکہ گورنر حاجی غلام علی جب مشرف دور میں پشاور کے ضلعی میئر تھے تو انہوں نے اس طرح کی کئی جائیدادوں پر قبضہ کیا اور پھر ان کے بیٹے حاجی زبیر علی کے میئر بننے کے بعد ان کی نظریں بھی ان قیمتی جائیدادوں پر ہے۔ تاہم پی ٹی آئی اور جے یو آئی کے درمیان اختلافات کی وجہ سے اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔

اب دونوں جماعتوں میں ورکنگ ریلیشن قائم ہوگیا ہے اور دونوں جماعتوں کے مقامی رہنمائوں نے ان جائیدادوں پر قبضہ کی منصوبہ بندی شروع کر دی ہے۔ اس کیلیے مقامی تاجروں کو بھی ساتھ ملایا جارہا ہے۔ تاہم تاجر ان کو ایسا نہیں کرنے دیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔