پرویز خٹک کو گورنر یا پی پی پی کا صوبائی صدر بنانے کا امکان ہے، فائل فوٹو
پرویز خٹک کو گورنر یا پی پی پی کا صوبائی صدر بنانے کا امکان ہے، فائل فوٹو

پیپلز پارٹی نے پرویز خٹک کو نیا ٹاسک دیدیا

محمد قاسم:
پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے ناراض ایم پی ایز کو منانے کیلئے تمام وزارتوں میں خصوصی مشیر مقرر کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جس کیلئے اراکین کے نام فائنل کرنا شروع کر دیئے گئے ہیں۔

ذرائع کے مطابق ذرائع کے مطابق خیبرپختون میں اس وقت 15 وزرا ہیں اور ان کے پاس ایک ایک انتظامی محکمہ ہے۔ بیشتر محکموں میں کئی ڈائریکٹوریٹ اور خودمختار ادارے ہیں۔ جن کے امور نمٹانے میں ایک وزیر کو مشکل پیش آتی ہے۔

ذرائع کے مطابق بیشتر معاونین خصوصی منتخب ارکان اسمبلی سے بھی لیے جائیں گے۔ اس وقت صوبائی کابینہ میں ارشد ایوب، شکیل احمد، فضل حکیم، عدنان قادری، عاقب اللہ، محمد سجاد، مینا خان آفریدی، فضل شکور، نذیر احمد عباسی، پختون یار، آفتاب عالم، خلیق الرحمان، قاسم علی شاہ، فیصل ترکی، ظاہر شاہ طورو، مزمل اسلم، ڈاکٹر امجد اور بیرسٹر سیف اور دیگر شامل ہیں۔

ذرائع کے مطابق حکومت ناراض ایم پی ایز کو منانے کیلئے انہیں محکموں میں تعینات کرنا چاہتی ہے۔ تاہم خدشہ ہے کہ ان معاونین اور وزرا کے درمیان رسہ کشی شروع ہو سکتی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ان اراکین کو معاون خصوصی بنانے کا مقصد وقتی طور پر ان کی ناراضگی کو ختم کرنا ہے۔ تاہم بعض ایم پی ایز کے سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے ساتھ رابطے ہیں۔

ذرائع کے بقول پیپلز پارٹی کے پرویز خٹک سے دوبارہ رابطے ہو گئے ہیں اور انہیں تحریک انصاف کے وزرا اور ارکان اسمبلی کو اپنے ساتھ ملاکر پیپلز پارٹی میں شامل کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کے خلاف کسی بھی موقع پر عدم اعتماد لانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ پی پی کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے پرویز خٹک کو ایک بار پھر ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ اپنے طور پر صوبہ خیبرپختون میں تبدیلی لائیں۔ اس کے بدلے پرویز خٹک کو گورنر یا پی پی پی کا صوبائی صدر بنانے کا امکان ہے اور وقت آنے پر وہ اپنے سابق ساتھیوں کو اعتماد میں لیں گے۔

دوسری جانب پی ٹی آئی کے صوبائی صدر اور وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور اس وقت پارٹی کے ساتھ ساتھ بیوروکریسی کے دبائو کا بھی شکار ہیں۔ وہ بیوروکریسی کی بات ماننے کے لیے تیار نہیں اور ان کی حکومت نگراں سیٹ اپ کی باقیات کو اب تک ہٹانے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔

دوسری جانب 21 اپریل کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں باجوڑ کے ایک قومی اور ایک صوبائی، جبکہ کوہاٹ کے دو صوبائی حلقوں میں انتخابات ہو رہے ہیں۔ باجوڑ میں پی ٹی آئی کو اندر سے بغاوت کا سامنا ہے اور نوجوان ووٹرز باغی گروپ کے ساتھ ہیں۔ جبکہ صوبائی حکومتی حلقے اور سرکاری حکام تحریک انصاف کے نامزد امیدواروں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جس پر الیکشن کمیشن نے باجوڑ کے قومی اسمبلی این اے 8 پی کے 20 کو حساس قرار دے دیا ہے کہ اس حلقے میں ایک بار پھر خون ریزی کا خدشہ ہے۔

واضح رہے کہ اس حلقے میں پی ٹی آئی کے امیدوار ریحان زیب کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا تھا اور ان کے بھائی اس وقت امیدوار ہیں۔ جبکہ مخالفین، پی ٹی آئی کے امیدوار کو مبینہ طور پر اس قتل میں محرک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ تحریک انصاف کے بانی عمران خان اگر جلد رہا نہیں ہوتے ہیں تو پی ٹی آئی آئندہ 3 سے5 ماہ کے اندر اندر بکھر جائے گی۔ تحریک انصاف کو متحدہ رکھنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ عمران خان جیل سے باہر ہوں۔ جیل میں رہنے کی صورت میں پی ٹی آئی کے وجود کو اندر سے ہی خطرہ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔