محمد علی :
ہندو انتہا پسند بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کے دعوے کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں پھوٹ گئی ہے۔ نریندر مودی مقبوضہ وادی میں منعقد کیے جانے والے بوگس لوک سبھا انتخابات سے بھی بھاگ گیا۔
الیکشن میں عدم شرکت کو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی بڑی سیاسی شکست کہا جارہا ہے۔ کیونکہ کشمیریوں کے فیصلے کا بھارتی ریاست کو بخوبی اندازہ ہے۔ مقبوضہ وادی کی دو مقامی جماعتوں نے بھی عوامی جذبات کے پیش نظر بی جے پی کو مسترد کردیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق بی جے پی کے انتخابات میں حصہ نہ لینے سے اس کے بیانیے اور دعوؤں کی اصلیت سامنے آگئی ہے۔ جو بھارت 2019ء میں مقبوضہ کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کے خاتمے کے بعد سے دہراتا آیا ہے۔ دوسری جانب ضلع پونچھ کے مختلف علاقوں کا محاصرہ چھٹے روز بھی جاری ہے۔
واضح رہے کہ مجاہدین نے گزشتہ دنوں بھارتی فضائیہ کے قافلے پر حملہ کیا تھا۔ جس میں اس کا ایک فوجی ہلاک اور 5 زخمی ہو گئے تھے۔ اب مودی سرکار نے اس حملے کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال دی ہے۔ روایتی بیان دیتے ہوئے اس نے کہا ہے کہ پونچھ حملے کا ماسٹر مائنڈ پاکستان میں ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق بھارتی فوج، پیرا ملٹری، پولیس اور وی ڈی سی کے اہلکاروں نے پونچھ، راجوری اور ڈوڈہ اضلاع کے مختلف علاقوں میں محاصرے اور کومبنگ اینڈ سرچ آپریشن کے دوران اب تک 4 نوجوانوں کو شہید کردیا ہے۔ بھارتی فورسز نے آپریشن کے دوران اب تک 26 افراد کو پوچھ گچھ کے لئے جبری حراست میں لے رکھا ہے۔ جبکہ ادھم پور اور کٹھوعہ اضلاع کے مختلف علاقوں میں آج 12 ویں روز بھی بھارتی فورسز کی محاصرے اور تلاشی کی کارروائیاں جاری ہیں۔
ایک طرف مقبوضہ وادی میں بھارتی قابض فورسز کے مظالم تھم نہیں رہے، تو دوسری جانب یہاں انتخابات کا ڈھونگ رچایا جا رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق کشمیر کی تین نشستوں پر دو مقامی جماعتوں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار مدِ مقابل ہیں۔
حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے مطابق بی جے پی نے کشمیر کی نشستوں پر انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ اپنے بیانیے سے متصادم نتائج آنے کے خوف کی وجہ سے کیا ہے۔ واضح رہے کہ 1996ء کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کشمیر میں لوک سبھا کے انتخابات میں حصہ نہیں لے رہی۔ جن تین نشستوں پر انتخابات ہونا ہیں۔ ان تینوں نشستوں پر دو مقامی جماعتوں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار مدِ مقابل ہیں۔ دونوں مقامی جماعتیں بی جے پی کی سیاسی مخالف ہیں اور دونوں نے ہی حزبِ اختلاف کی قیادت کرنے والی جماعت کانگریس کے ساتھ اتحاد کا اشارہ دیا ہے۔
نریندر مودی یہ دعویٰ کرتا رہا ہے کہ 2019ء میں ریاست کی نیم خود مختار آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد کشمیر زیادہ متحد اور پر امن ہو گیا ہے اور جلد کشمیر میں سرمایہ کاری لائی جائے گی۔ جس سے نوکریوں کے مواقع پیدا ہوں گے۔ واضح رہے کہ مئی 2019ء میں ہونے والے عام انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو کشمیر کی تینوں نشستوں پر سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کی جماعت نیشنل کانفرنس سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں بی جے پی کی قیادت کرنے والے رہنما رویندر رائنا کا خفت مٹاتے ہوئے کہنا تھا کہ ان کی جماعت نے کشمیر میں ایک وسیع منصوبہ بندی کے تحت انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔