یہ مقدمہ پولیس کی بکتر بند گاڑی پر فائرنگ کا تھا، عزیر بلوچ پر مختلف تھانوں میں 61 مقدمات درج ہیں
یہ مقدمہ پولیس کی بکتر بند گاڑی پر فائرنگ کا تھا، عزیر بلوچ پر مختلف تھانوں میں 61 مقدمات درج ہیں

سندھ حکومت نے عزیر بلوچ اور بلدیہ فیکٹری کی جے آئی ٹی رپورٹ پبلک کردی

حکومت سندھ نے عزیر بلوچ اور سانحہ بلدیہ کی تحقیقات کیلیے بنائی گئی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کی رپورٹ کو پبلک کردیا گیا تاہم نثار مورائی کی رپورٹ تاحال اپ لوڈ نہیں کی گئی۔

خیال رہے کہ وفاقی وزیرعلی زیدی کچھ عرصے سے تینوں جے آئی ٹیزکو پبلک کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے جس کے بعد سندھ حکومت نے عزیربلوچ، بلدیہ ٹاؤن فیکٹری اور نثار مورائی کی رپورٹس کو عام کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔

سندھ حکومت نے تینوں جے آئی ٹیز پبلک کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی میں آصف زرداری اور فریال تالپور کا ذکر نہیں۔

جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عزیر بلوچ نے لسانی اور گینگ وار تنازع میں تمام افراد کو قتل کیا۔ اس نے اثرورسوخ کی بنیاد پر 7 ایس ایچ اوز تعینات کروائے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عزیر بلوچ نے اقبال بھٹی کو ٹی پی او لیاری تعینات کروایا جبکہ 2019ء میں محمد رئیس کو ایڈمنسٹر لیاری لگوایا۔ ملزم کے بیرون ملک فرار کے باوجود ماہانہ لاکھوں روپے بھتہ دبئی بھیجا جاتا رہا۔

دو ہزار اٹھ سے دو ہزار تیرہ کے دوران مختلف ہتھیار خریدنے کا انکشاف بھی جے آئی ٹی رپورٹ میں سامنے آیا ہے جبکہ ملزم کے متعدد افراد کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہونے کا بھی بتایا گیا ہے۔

ادھر بلدیہ ٹاؤن فیکٹری سانحے کی تحقیقات کیلئے بنائی گئی جوائنٹ انوسٹی گیشن (جے آئی ٹی) کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2012ء میں پیش آتشزدگی کا یہ واقعہ دہشتگردی تھا۔

سانحہ بلدیہ فیکٹری کی جے آئی ٹی رپورٹ 27 صفحات پر مشتمل ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آگ 20 کروڑ روپے بھتہ نہ دینے پر لگائی گئی تھی۔ فیکٹری سے بھتہ ایم کیو ایم کے حماد صدیقی اور رحمان بھولا نے مانگا تھا۔

رپورٹ کے مطابق واقعے کے مقدمے اور تحقیقات میں ملزمان کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ دہشتگردانہ کارروائی کو ایف آئی آر میں پہلے قتل کہا گیا، پھر حادثہ قرار دے دیا گیا۔

ابتدائی تحقیقات میں ایف آئی آر یا تفتیش میں کہیں بھتے کا ذکر نہیں کیا گیا۔ جے آئی ٹی نے گزشتہ ایف آئی آر واپس لینے اور دہشتگردی کی دفعات کے تحت نیا مقدمہ درج کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔

جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم نے ایف آئی آر میں رحمان بھولا، حماد صدیقی اور زبیر چریا اور دیگر افراد کے نام ڈالنے کی سفارش کی ہے۔

رپورٹ میں مقدمے کے مفرور ملزمان کو بیرون ملک سے واپس لانے، تمام ملزمان کے پاسپورٹ منسوخ کرنے اور نام ای سی ایل میں ڈالنے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔

اس کے علاوہ جے آئی ٹی رپورٹ میں واقعے کے تمام گواہوں کو تحفظ فراہم کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ فیکٹری مالکان سے بھتہ کےعوض خریدا گیا حیدر آباد کا 1 ہزار گز بنگلہ واپس مالکان کو دیا جائے۔

جے آئی ٹی رپورٹ میں واقعے کے تناظر میں پولیس کے کردار پر بھی کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پولیس ہائی پروفائل واقعے کی درست سمت میں تحقیقات میں ناکام ہوئی۔ مستقبل میں ایسے واقعات میں تفتیش کی ناکامی کو روکنے کے لیے اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے۔